Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاؤن میں کمائی: کھانوں اور فروزن اشیا کی ہوم ڈیلیوری

افشین احمد سکول ٹیچر ہیں، عرصہ دراز سے وہ اپنا کوکنگ بزنس شروع کرنا چاہتی تھیں مگر کبھی حالات موافق نہ ہوئے۔
موجودہ لاک ڈاؤن نے ایک طرف تو لوگوں کے مسائل میں اضافہ کیا وہیں کچھ اس سے مستفید بھی ہوئے، جیسے کہ افشین کو فوڈ ہوم ڈیلیوری بزنس شروع کرنے کا موقعہ مل گیا۔
مارکیٹس اور آمدورفت کی بندش کے سبب لوگوں نے انٹرنیٹ سے استفادہ شروع کیا ہے اور اپنی تیار کردہ چیزیں آن لائن فروخت کر رہے ہیں جس میں بڑی تعداد نیم تیار اور فروزن آئٹمز کی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے افشین کا کہنا تھا کہ 'جب حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو وہ پیزا بنانے کا بہت سارا سامان لے آئی تھیں۔'
’میرے بچوں کو پیزا پسند ہے تو مجھے اندازہ تھا کہ لاک ڈاؤن میں پیزا بنا کر وقت گزار لیں گے، لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ لوگوں کے لیے بھی بنایا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ 'شروع میں تو بس اپنے جاننے والوں کو میسجز کیے اور پوچھا کہ کوئی پیزا بنوانا چاہے تو بتا دے۔'
’رشتہ دار تو آرڈرز خود آ کر لے گئے، لیکن دیگر لوگوں نے فری ڈیلیوری کا کہا جس پر میں اب صرف اپنے علاقے کے لوگوں کے ہی آرڈرز لے رہی ہوں۔ میرا بیٹا 14 سال کا ہے، یا تو وہ کھانا لے جاتا ہے یا میں خود ہی دے آتی ہوں۔‘
افشین نے بتایا کہ 'شروع میں تو وہ صرف پیزا ہی بنا رہی تھیں مگر اب وہ زنگر برگر اور رولز بھی بنا رہی ہیں۔ دن میں جب دکانیں کھلتی ہیں تو وہ سامان لے آتی ہیں اور ڈیلیوری کے لیے شام 5 سے رات 12 تک کا وقت متعین کیا ہے۔'
’لوگ دن میں ہی فون پر بتا دیتے ہیں، ایک دن میں 4 سے پانچ آرڈرز آجاتے ہیں تو ایسا ہے کہ جتنا خرچ لگ رہا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے، ہاں ابھی منافع بخش والی نوبت نہیں آئی۔‘

افشین پیزا بنانے کے آرڈرز لیتی ہیں (فوٹو: پکس فیول)

ایک سوال کے جواب میں افشین کا کہنا تھا کہ 'وہ اب اس کام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور سکول کھلنے کے بعد بھی وہ وقت نکال کے یہ کام کریں گی، تاکہ اسے باضابطہ کمائی کا ذریعہ بنایا جا سکے۔'
زرین خان کمیونیکیشن پروفیشنل ہیں اور ایک نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 'بہت پہلے انہوں نے گھر میں کھانا بنا کر لوگوں کو بیچنے کا کام شروع کیا تھا تاہم پھر پڑھائی اور نوکری نے اسے جاری رکھنے کی مہلت نہ دی لیکن اب لاک ڈاؤن کی فراغت میں انہوں نے اپنے آئیڈیا پر پھر سے کام شروع کر دیا۔'
انہوں نے بتایا کہ 'وہ رمضان کی مناسبت سے فروزن فوڈ کے علاوہ پکی پکائی ڈشیں بھی ڈیلیور کرواتی ہیں۔'
’پہلے پہل تو فیس بک پر جاننے والوں کو ہی بتایا اور ان کے آرڈرز آئے، پھر باضابطہ طور پر پمفلٹس بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے تو اب کافی آرڈرز آنے لگے ہیں۔‘
کھانوں کی ڈیلیوری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'جب لاک ڈاؤن ایک دم سخت تھا تب تو وہ لوگوں کو خود کھانا پکا کر لینے کا کہہ دیتی تھی۔'
’میں ان کا آرڈر ریڈی کر کے  ٹائم بتا دیتی تھی، اور لوگ آ کے لے جاتے۔ اب چونکہ ڈیلیوری سروسز بحال ہوگئی ہیں تو میرے رابطے میں جو رائیڈرز ہیں میں ان کے ذریعے ہوم ڈیلیوری کرواتی ہوں۔‘

زرین خان فروزن فوڈ کے علاوہ پکی پکائی ڈشیں بھی ڈیلیور کرواتی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

فروزن آئٹمز کے علاوہ زرین گجراتی کھانے بھی لوگوں کے لیے بناتی ہیں۔ ’میں تمام آرڈرز ایک دن پہلے لیتی ہوں اور اس حساب سے صبح ہی جا کر سامان خرید لاتی ہوں۔ عمومی طور پر میں ایک وقت میں ایک ہی ڈش تیار کرتی ہوں، اور اپنے پیج پر بتا دیتی ہوں کہ کل یہ ڈش بنے گی، جن کو آرڈر کرنا ہے وہ بتا دیں۔ اس طرح مجھے آسانی رہتی ہے اور توجہ بھی زائل نہیں ہوتی جس سے کھانا اچھا پکتا ہے۔‘
عمر زاہد کرکٹ کوچ ہیں اور فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز ڈگری رکھتے ہیں، لاک ڈاؤن میں انہیں فراغت ستائی تو والدہ کے ساتھ مل کر فروزن آئٹمز کی ترسیل کے کام کا آغاز کردیا۔
’چیزیں بناتی تو امی ہیں، میرا کام تیاری کی تمام اشیا لے کر آنا اور تیار آئٹمز لوگوں کے گھروں تک پہنچانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'میں کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ کمائی کا کوئی متوازی ذریعہ ہونا چاہیے۔'
’رمضان میں ویسے بھی کاروبار بڑھ جاتا ہے، اس رمضان لاک ڈاؤن کی وجہ سے مارکیٹس اور دکانیں تو شام میں جلدی ہی بند ہو جاتی ہیں لٰہذا افطار لوگ گھر میں بنا رہے ہیں، ایسے میں فروزن اشیا جیسا کہ رول، سموسے، نگٹس کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اچھا چل نکلا تو اسے جاری رکھنے کا ارادہ ہے۔‘

ترکیبوں کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لی جاتی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

یہ تمام تر مارکیٹنگ اور فروخت سوشل میڈیا کے ذریعے کی جا رہی ہے، ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایکسپرٹ محسن ضیا نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'حالیہ دنوں میں لوگوں کی آن لائن موجودگی پہلے کے مقابلے میں کافی بڑھ گئی ہے، جس کا اثر ڈیجیٹل مارکیٹنگ پر بھی آیا ہے۔'
’مثال کے طور پر پہلے اگر ہم کوئی ویڈیو اپلوڈ کرتے تھے تو 100 میں سے 10 لوگ ہی بمشکل اسے دیکھتے تھے، باقی سکرول کر جاتے تھے لیکن اب ویڈیو کلک کر کے دیکھنے والوں کی تعداد تین گنا ہوگئی ہے۔‘
محسن نے بتایا کہ 'یہی اضافہ یو ٹیوب ویڈیوز کے دیکھنے والوں میں بھی ہوا ہے، خاص کر کھانا پکانے والی وڈیوز دیکھنے میں اضافہ ہوا ہے۔'
’ایک عام ٹرینڈ ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن میں نت نئے پکوان بنا رہے ہیں جن کی تراکیب وہ یوٹیوب سے سیکھ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے آن لائن کانٹینٹ ویورشپ میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور آن لائن پروڈکٹ کو آرڈر کرنے کی شرح بھی بڑھی ہے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں