Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کے تخلیق کردہ ڈیجیٹل شاہکار

لاک ڈاؤن میں آیت فاطمہ نے کیک، سٹرابری ملک شیک، ڈونٹ اور آلو کی بھجیا بنائی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
بچوں کو سکول سے چھٹی کرنا تو پسند ہوتا ہی ہے لیکن نئی کلاس شروع ہونے، نئی کتابیں کاپیاں اور بستہ آنے سے پہلے ہی سکول بند ہو جائیں تو انہیں اس کا افسوس بھی ہوتا ہے۔
لاک ڈاؤن نے جہاں تمام طبقات کو متاثر کیا ہے وہیں بچے بھی اس سے متاثر ہونے والا بڑا طبقہ ہیں، جو سکول بند ہو جانے کی وجہ سے گھروں پر ہیں۔ شاید انہیں یہ سمجھ بھی نہیں کہ ان کو اچانک کیوں محصور کر دیا گیا ہے۔
 بچے یکسانیت سے بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں وہ وقت گزارنے کے لیے کبھی کسی سرگرمی میں لگ جاتے ہیں تو کبھی کچھ  تخلیق کرتے ہیں۔ جب اس سے بھی دل بھر جائے تو اپنی من پسند شرارتوں کے ذریعے دل بہلاتے ہیں۔ 
یہ ڈیجیٹل دور ہے تو بچوں کی سوچ کا دھارا بھی اسی تناظر میں پروان چڑھ رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بہت سے بچوں نے اپنی نئی دنیا آباد کر لی ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو تصوراتی دنیا میں کیسے پورا ہوتا دیکھتے ہیں اس کی عکاسی 14 سالہ فاطمہ مشتاق نے اپنے ڈرائنگز میں بھر پور انداز میں کی ہے۔
فاطمہ نے لاک ڈاؤن کو زندگی کا مستقل حصہ سمجھتے ہوئے ایک نیا سیارہ تخلیق کیا ہے۔ جہاں پر انسانوں کے بجائے سیارے اور ستارے ہیں۔ چیزیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے چلتی ہیں۔ وہ چیزیں جو عموماً صرف سائنس کی کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہیں فاطمہ نے ان کو چلتے پھرتے، بچوں کی دنیا میں ان کے دوست کے طور دکھایا ہے۔ جہاں وہ جھولے بھی جھولتے ہیں اور بچوں کے سامنے اٹھکیلیاں بھی کرتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ فاطمہ مشتاق نے سوچا کہ عید قریب آ رہی ہے اور اسے عید کے کپڑے، چوڑیاں اور باقی چیزوں کی ضرورت بھی ہوگی۔ ایسے میں اس کے تخلیقی ذہن نے ایک سیارے کا نقشہ کھینچا جو بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھر کی چھت پر آتا ہے اور کپڑے جوتے اور تحفے تحائف دے کر چلا جاتا ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران بہت سے بچوں نے اپنی نئی دنیا آباد کر لی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

فاطمہ کے مطابق یہ آن لائن یا ڈیجیٹل شاپنگ کا اگلا مرحلہ ہے۔ جہاں چیزوں کی ہوم ڈیلیوری انسانوں کے ذریعے نہیں ہوگی۔ چیزیں خود چل کر ہی آپ کے پاس پہنچ جایا کریں گی۔ جیسے انہوں نے اپنی ایک ڈرائنگ میں چائے کے کپ کو چل کر آتے ہوئے دکھایا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں سبھی یوٹیوب کا استعمال بھی کثرت سے کر رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی پسند کی چیزیں تلاش کرتا اور دیکھ رہا ہوتا ہے بلکہ اس میں مگن ہوتا ہے۔  ایسے میں بچے مداخلت کریں تو ماما پاپا کی طرف سے بعض اوقات پٹائی بھی لگ جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن میں بوریت کا شکار ہونے کے بعد بچوں نے تخلیقی کام شروع کر دیے۔ فوٹو: اردو نیوز

اس صورت حال سے بچنے کے لیے آٹھ سالہ آیت فاطمہ نے اپنے چاچو سجاول انصاری کے ساتھ مل کر پلان بنایا کہ کیوں نہ یوٹیوب چینل ہی بنا لیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ چینل کیسا ہونا چاہیے؟ آیت نے ماما کے ٹریڈ سیکریٹ کا بھانڈہ پھوڑتے ہوئے بتایا کہ ماما ساری مزے مزے کی چیزیں تو یوٹیوب سے دیکھ کر ہی تو بناتی ہیں کیوں نہ ہم بھی کوکنگ چینل بنائیں۔
بس پھر آیت نے کوکنگ شروع کر دی۔ اب تک آیت فاطمہ نے کیک، سٹرابری ملک شیک، ڈونٹ، پیزا، چکن تکہ، آلو کی بھجیا بنائی ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ آیت نے خود سے دہی بھی جمایا ہے۔

بچے اپنے من پسند کھانوں کی فوٹوگرافی بھی کر رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ڈیجیٹل دنیا کا ایک اور اہم جزو فوٹو گرافی ہے۔ 13 سالہ محمد عزیز کو فوٹو گرافی کا شوق ہے۔ لاک ڈاؤن نے ان کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کر سکیں لیکن باہر نہیں نکل سکتے۔ اس کے باوجود ان کے اندر کی تخلیقی حس انہیں آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ وہ کبھی گھر کی چھت پر کبھی اپنے گھر کی لان میں فوٹو گرافی کرکے اپنے اس شوق کی تسکین کر رہے ہیں۔
ان کی بہن مریم عزیز نے لاک ڈاؤن میں گھر میں نئے پودے اگانے کا فیصلہ کیا تو محمد عزیز نے ان کی اس سرگرمی کو بھی اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: