ہم گلی میں نکلے تو علامہ تھڑے پر تنہا بیٹھے کسی بات پر ’پھوٹ پھوٹ‘ کر ہنس رہے تھے۔ اس دوران ان کے منہ سے پان کے چھینٹے پھوار کی طرح برس رہے تھے۔
’علامہ آپ یہاں؟‘ ہم نے صورت حال ’بریک‘ کرنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر جوں ہی اُن کا منہ ہماری جانب ہوا ہمارے کپڑوں پر بھی نقش بنا گیا۔۔۔ ہنسی تھی کے رُک نہیں رہی تھی۔
یہ کیا بد تہذیبی ہے۔۔۔ ہم ناراض ہوئے تو اُن کی ہنسی کو بریک لگی۔ سنجیدگی سے بولے: ’تم ’گٹکے‘ اور ’مین پوری‘ کے عہد میں جوان ہوئے ہو۔ تمہیں کیا پتا کہ پان تہذیب کی علامت ہے‘۔
’اور یہ داغ ؟‘۔۔۔ ہم نے اپنے کپڑوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
چہک کر بولے: ’ داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘۔۔۔ پھر گلے میں لٹکے پیتل کے خِلال (toothpick) سے داڑھ میں پھنسی چھالیہ باہر نکالی اور ’ پُھر‘ سے ہوا میں اُڑا نے کے بعد شعر پڑھا:
گورکن کے بال بچے بھوک سے بیتاب ہیں
کوئی مر جائے تو یہ جی جائیں اے پروردگار
’یہ شعر کا کون سا موقع ہے؟‘ ۔۔۔ہم حیران ہوئے
کہنے لگے: ’جس طرح گورکن کی زندگی لوگوں کی موت سے جڑی ہے ایسے ہی میلے اور داغ دار کپڑے ہماری روزی روٹی کا سامان ہیں‘۔
تو اس کے لئے آپ دوسروں کے کپڑوں پر پان پیکتے پھریں گے؟
کہنے لگے: یار تم خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہو ہمیں تو اخبار پڑھ کر ہنسی آگئی تھی۔
’مطلب‘ ۔۔۔ہم نے کہا۔
سنو اور خود فیصلہ کرو۔ خبر ہے: ’کریلا پکانے پر شوہر سے مار کھا کر بیوی تھانے پہنچ گئی‘۔۔۔ بھائی’کریلا‘ واحد کا صیغہ ہے، اس سے تو یہی بدگمانی ہوتی ہے کہ بیوی نے ایک ہی ’کریلا‘ بنایا تھا، جس پر شوہر تپ گیا۔ سچ پوچھو تو یہاں ’کریلا‘ نہیں ’کریلے‘ہونا چاہیے تھا۔ بھلا ایک کریلا بھی کوئی پکاتا ہے۔
اور سنو۔۔۔ ایک کالم کا عنوان ہے: ’کچرے سے لتھڑا یہ معاشرہ‘۔
اس عنوان میں کیا مسئلہ ؟ ۔۔۔ ہم نے پوچھا۔
بولے: ’’کچرے‘ کے ساتھ لفظ ’لتھڑا‘ خلاف محاورہ ہے۔ اگر ’لتھڑا‘ جملے میں استعمال کرنا مقصود تھا تو عنوان ’ غلاظت میں لتھڑا یہ معاشرہ‘ ہونا چاہیے تھا‘۔
ہم نے تائید میں سر ہلایا تو بولے :’پٹاری میں اور بھی خبریں ہیں کہو تو سناؤں‘؟
’بالکل سنائیں‘ ۔۔۔ ہم خوش تھے کہ علامہ جُگادری لائن پر آگئے ہیں۔
کہنے لگے: ایک اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا عنوان ہے: ’ ڈوبتی معیشت کا سفینہ‘۔
اس میں کیا پیچیدگی ہے؟ ۔۔۔ ہم نے کچھ غور کرنے کے بعد پوچھا۔
’یار سیدھی سی بات ہے عنوان: ’معیشت کا ڈوبتا سفینہ‘ ہونا چاہیے تھا۔ یعنی معیشت اگر ایک جہاز ہے تو یہ جہاز ڈوب رہا ہے۔’ ڈوبتی معیشت کا سفینہ‘ غلط جملہ ہے۔
ہونہہ بات میں دَم ہے۔۔۔ ہم نے کہا۔
اب خبر کی یہ سرخی دیکھو: ’ ہارر فلم’ اِٹ چیپٹر ٹو ‘ نے 14 ارب روپے کمالیے‘۔۔۔ یارفلم 14 چھوڑ 24 ارب روپے کمائے ہماری بلا سے، مگر ’ہاررفلم ‘ کو ’ڈراؤنی فلم‘ لکھنے سے چڑیل تو نہیں چمٹ جاتی۔
علامہ کے اندر کا نقاد پوری طرح جاگ چکا تھا، لہٰذا وہ ایک کے بعد ایک خبر پر تنقید کر رہے تھے۔
’بھائی مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب انگریزی الفاظ کے آسان اردو مترادفات موجود ہیں تو پھر بدیسی الفاظ ہی پر اصرار کیوں؟۔۔۔ خبر کی یہ سرخی چیک کرو: ’سویڈن، بچہ کلاس میں گرینیڈ لے آیا‘۔۔۔ میں نہیں کہتا کہ ’پری سکول‘ کو ’مرحلہ ما قبلِ مدرسہ‘ کہو یا ’کلاس‘ کو ’جماعت‘ لکھو، مگر یار گرینیڈ کو ’دستی بم‘ تو لکھ سکتے ہو۔بم نے کونسا پھٹ جانا تھا۔
ہاں ایک بات۔ ابھی پرلے روز ہی کی خبر ہے:’مسافر بسوں میں بھارتی فلمیں دکھانے پر پابندی عائد‘۔۔۔ یار اگر اس سرخی میں ’عائد‘ نہ بھی لکھیں تو بھی خبر اور اس کا ابلاغ مکمل ہو جائے گا۔
علامہ نے دم لیا اور پھر بولے: ’سوشل میڈیا پر جو لوگ اپنا غبار نکال رہے ہیں ان کی زبان کو اردو سے فقط اتنا تعلق ہے کہ اردو بھی اسی رسم الخط میں لکھی جاتی۔ خیر اب تم سوشل میڈیا کی رعایت سے لطیفہ سنو۔ ایک اشتہاری پوسٹ کا عنوان تھا :’ تیل ناک میں ڈالیں جن بھاگ جائے گا ‘۔۔۔ چونکہ ہم جلدی میں تھے تفصیل نہیں دیکھ سکے۔ جب تفصیل جاننی چاہی تو پوسٹ نہیں ملی۔ مگر اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ تیل ’جن‘ کی ناک میں ڈالنا ہے یا جن سے متاثرہ شخص کی ناک میں ؟۔۔۔ اگر جن کی ناک میں تیل ڈالنا ہے تو اس کے لیے جن کو قابو کرنا پڑے گا اور اگر جن قابو آجائے تو ناک میں تیل ڈالنے کی کیا ضرورت ہے سیدھے نکیل ڈالو اور مفت میں کام نکلواؤ۔ خیر اگر تمہاری نظر سے یہ پوسٹ گزرے تو مجھے ضرور ’ٹیگ‘ کردینا۔
علامہ جُگادری دل کے پھپھولے پھوڑ چکے تو بولے ’اب میں چلتا ہوں کام کا ہرج ہو رہا ہے، باقی خبریں کسی اور دن سنا ؤں گا۔۔۔۔ اللہ حافظ‘۔