Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سری نگر‘ کے نام کے پیچھے کیا راز ہے؟

ہندو دیو مالا میں دولت کی دیوی کا نام ’لکشمی‘ ہے،جسے ’شری دیوی‘بھی کہتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
آج گھاٹ پر ہر طرف سفید چادریں لہرا رہی تھیں۔ جن چادروں کو اَلگنی پر جگہ نہیں ملی انہیں زمین پر بچھا کر اُن پر پتھر دھر دیے گئے تھے کہ یہ کسی اور کے لیے ’گنجِ باد آور‘ نہ بن جائیں۔ انہیں چادروں میں سے ایک پر علامہ جُگادری کپڑوں کے بھاری بھرکم گٹھر سے ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ سلام کیا تو چونک اٹھے۔
ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر سوچ کے سمندر میں اتر گئے۔ ہمارے لیے یہ سنجیدگی خلاف معمول تھی سو ہم نے پوچھ لیا: ’علامہ سب خیر ہے، کن سوچوں میں گم ہیں؟‘
جواب میں انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور بولے : ’کشمیری بھی کیا قسمت لے کر آئے ہیں۔ جنت میں جہنم کا دکھ جَھیل لے رہیں‘۔
چونکہ کشمیر کا معاملہ پھر گرم ہے اس لیے بات سمجھنے میں دیر نہ لگی مگر ہمیں علامہ کی اداسی پریشان کر رہی تھی، ہم نے بات گھمانے کی کوشش کی: ’علامہ آج گھاٹ میدانِ امن بنا ہوا ہے ہر طرف سفید پھریرے لہرا رہے ہیں‘۔
’بھائی یہ ہسپتال کی دھوب ہے اس میں سفید چادریں نہیں ہوں گی تو کیا شادی کے جوڑے ہوں گے‘۔ علامہ کے اندر کا جُگادری لمحہ بھر کو جاگا کو مگر پھر وہی اداسی لوٹ آئی۔
’یار بھارت نے ’کاشر‘ بھائیوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے‘۔۔ علامہ کا لہجہ بجھا ہوا تھا۔

سنسکرت میں برف کو ’ہیم‘ اور گھر کو ’آلہ‘ کہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’ یہ کاشر بھائی کون ہیں؟‘۔۔۔۔ ہم نے پوچھا
’جس طرح ایران کے قدیم  شہر ’رے‘ کا باشندہ ’رازی‘ کہلاتا ہے اور یمن کے شہر ’حضر موت‘ کے باشندے کو ’حضرمی‘ کہتے ہیں، ویسے ہی کشمیر کے باشندے کو ’کاشر‘ اور ’کشیر‘ کہتے ہیں‘۔ علامہ نے گوگل کی رفتار سے جواب دیا۔
یہ بات ہمارے تجسس کے لیے مہمیز ثابت ہوئی، چنانچہ ہم نے کہا :’اور  ’کشمیر‘ کو کشمیر کیوں کہتے ہیں؟‘
علامہ بولے:’ بھائی سچی بات تو یہ ہے کہ لفظ ’کشمیر‘ کی اصل سے متعلق بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ سب بیان کرنے بیٹھ گیا تو بات لمبی ہوجائے گی، فی الحال جو بتادوں اس ہی پر گزارا کرو‘۔
’جی جی ارشاد‘۔۔۔ہم نے کہا۔
اچھا تو پھر سنو :’کشمیر کو ’کاشمیر‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ قدیم سنسکرت کے دولفظوں ’کش‘ اور ’میر‘ سے مل کر بنا ہے۔ لفظ ’کش‘ اصل میں ’کاش‘ کی مختصر صورت ہے اور اس کے معنی ہیں برف یا پانی کا چمکنا، جبکہ ’میر‘ بڑی جھیل یا سمندر کو کہتے ہیں۔ اب کاشمیر کے ’کاش‘ کو ذہن میں رکھو اور مشرقی ترکستان کے مشہور شہر’کاشغر‘ اور ایران کے شہر ’کاشان‘ کے ناموں پر غور کرو شائد کوئی گرہ کُھل جائے‘۔
اتنا کہہ کر دَم لیا اور بولے: ’’کشمیر‘ کو ’کشیپ میر‘ کی بدلی ہوئی شکل بھی کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ’کشیپ‘ ایک ہندو رشی تھا جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس نے علم کے زور سے پہاڑ سے پانی جاری کردیا تھا جو بعد میں جھیل بن گیا۔۔۔خیر یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم حقیقی معنی کچھ بھی ہوں کشمیر کے موسم کا خوش گوار اثر یہاں کے باشندوں کے رنگ و روپ پر خوب پڑا ہے۔اسی لیے کہتے ہیں ۔۔۔کشمیری سے گورا سو کوڑھا‘۔۔۔۔یہ کہہ کر علامہ نے قہقہہ لگایا۔
اور ’سری نگر‘ کے پیچھے کیا راز ہے؟۔۔۔ہمارا اگلا سوال تھا۔

’کشمیری سے گورا سو کوڑھا‘۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

علامہ نے ہمیں عینک کے اوپر سے گھورا اور بولے:’زمانہ قدیم ہی سے شہروں کے نام دیوی دیوتاؤں کے ناموں پر رکھنے کا رواج رہا ہے۔’بغداد‘ کو ہی دیکھ لو۔جو ’بغ‘ اور ’داد‘ سے مرکب ہے۔اور اس کا مطلب ہے ’بغ (دیوتا) کا عطیہ‘۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے علما اسے بغداد کے بجائے ’مدینۃ السلام‘ کہتے تھے۔پھر لبنان کا قدیم شہر ’بعلبک‘ بھی ہے۔ جس کے معنی ہیں ’بعل (دیوتا) کا شہر‘۔ ’بک‘ اصل میں شہر کو کہتے ہیں۔خود قرآن میں مکہ کو ’بکہ‘ کہا گیا ہے‘۔
علامہ ’سری نگر‘ کہاں رہ گیا؟۔۔۔ہم نے ٹوکا۔
بھائی صبر رکھو میں ادہر ہی آرہاہوں ۔۔۔ علامہ نے یہ کہہ کر سلسلہ کلام آگے بڑھایا: ’ اسلام کی آمد سے بہت پہلے یہاں ہندومت کا زور تھا اس لیے بہت سے علاقوں ہی نہیں پہاڑوں، دریاؤں اور چشموں کے ناموں میں سنسکرت اور ہنددیومالا کا اثر پایا جاتا ہے۔یہی کچھ ’سری نگر‘ سے متعلق ہے۔لفظ ’سری نگر‘ دولفظوں ’سری‘ اور ’نگر‘سے مرکب۔’نگر‘کا لفظ آبادی کو ظاہر کرتا ہے اسی لیے یہ مختلف شہروں کے ناموں کا جزوہے۔مثلاً ’احمد نگر‘ اور ’مظفر نگر‘ وغیرہ۔آبادی محدود اور مختصر ہو تو اسے نگری بھی کہہ دیتے ہیں،جیسے کراچی میں ایک بستی ’عیسیٰ نگری‘ کہلاتی ہے۔
لفظ ’نگری‘ ملک کے معنوں میں بھی بولتے ہیں،مشہور محاورہ ہے’اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سر کھاجا‘۔
خیر اب اس ’سری نگر‘ کے ’سری‘ کو سمجھو۔ ’سری‘ سے متعلق دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہندو دیو مالا میں دولت کی دیوی کا نام ’لکشمی‘ ہے،جسے ’شری دیوی‘بھی کہتے ہیں۔ اسی دیوی کے نام پر کشمیر کے صدر مقام کا نام ’شری نگر‘ ہے۔چونکہ حرف شین اور سین آپس میں بدل جاتے ہیں اسی لیے اسے ’شری نگر اور سری نگر‘ دونوں کہتے ہیں۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سنسکرت میں سورج کو ’سوریا‘ اور ’شری‘ کہا جاتا ہے، چونکہ سری نگر ایک وسیع وادی میں واقع ہے،اور یہاں سورج ہمالیہ کی دیگر وادیوں کے مقابلے میں زیادہ آب وتاب سے طلوع ہوتا ہے اس لیے اسے ’شری نگر‘ یعنی سورج کا شہر کہتے ہیں۔
’ابھی آپ نے ’ہمالیہ‘ کا ذکر کیا۔۔۔یہ بتائیں اس پہاڑی سلسلے کو ہمالیہ کیوں کہتے ہیں؟‘
’ شائد ’ہمالیہ‘ اسے انگریزی کے زیر اثر کہتے ہیں۔غالباً درست لفظ ’ہمالہ‘ ہے‘۔علامہ اقبال کی کتاب ’بانگ درا‘ کی پہلی نظم کا عنوان ہی ’ہمالہ‘ہے۔اس نظم کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے:
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
اب ’ہمالہ‘ کے لفظی معنوں پر آؤ۔ سنسکرت میں برف کو ’ہیم‘ اور گھر کو ’آلہ‘ کہتے ہیں۔یوں ہمالہ کا مطلب ہوا ’برف کا گھر‘۔اس ’آلہ‘ کو ’شوالہ‘ میں بھی دیکھ سکتے ہو جس کے معنی ہیں ’شیو کا گھر‘۔۔۔۔اتنا کہہ کر علامہ جُگادری نےجیبی گھڑی میں ٹائم دیکھا اور بولے ’ ارے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ چلو میاں کام بڑھائیں باقی باتیں بعد میں ہوں گی‘۔اللہ حافظ

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: