Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک بھر کی مارکیٹوں میں رش

کچھ دکانوں میں شٹر نیچے کر کے خرید وفروخت جاری ہے۔ فائل فوٹو: پنٹرسٹ
پاکستان میں لاک ڈاؤن شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے۔ صوبوں نے معاشی بدحالی کے سبب بعض کاروبار مرحلہ وار کھولنے کا اشارہ دیا ہے۔ تاہم اب بھی اشیائے صرف  کے علاوہ  دکانیں، شاپنگ مالز بند رکھنے کا حکم ہے۔ رمضان میں عید کے لیے عمواماً لوگ کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں مگر اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے صورتِ حال مخلتف ہے۔
پاکستان کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اُردو نیوز نے پاکستان کے مختلف صوبوں میں موجود اپنے رپورٹرز سے وہاں کے حالات معلوم کیے ہیں۔
اسلام آباد، راولپنڈی میں سماجی دوری برائے نام؟
اسلام آباد اور راولپنڈی میں صورتِ حال کسی حد تک ایک جیسی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں بظاہر تو لاک ڈاؤن ہے اور بہت ساری دکانیں بند ہیں تاہم  کچھ دکانوں کے مالکان نے شٹر نیچے کر کے خرید وفروخت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح صدر بازار سمیت راوالپنڈی  کے کچھ علاقوں اور مارکیٹوں میں خفیہ خرید و فروخت ہورہی ہے۔
گاہک آنے پر اُس کو دکان کے اندر بھیج دیا جاتا ہے اور شٹر گرا دیا جاتا ہے اور وہ اپنی پسند کی شاپنگ کر کے باہر نکل آتا ہے۔ راولپنڈی میں چند تاجروں نے دکانوں کے باہر ٹھیلوں پر اپنی چیزیں فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔ بظاہر لاک ڈاؤن ہے مگر حقیقت میں بازاورں میں عام دنوں کی طرح گہما گہمی ہے۔ اور سوشل ڈسٹنسنگ صرف برائے نام ہی رہ گئی ہے۔

کراچی میں خواتین عید کی تیاری پر بضد نظر آتی ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

کراچی میں 'ایجنٹوں' کے ذریعے کاروبار
سندھ میں لاک ڈاؤن دیگر صوبوں کی بنسبت زیادہ سخت ہے، پھر بھی کراچی کی خواتین عید کی تیاری پر بضد نظر آتی ہیں اور تمام تر پابندیوں کے باوجود کپڑوں کی مارکیٹ کا رخ کر رہی ہیں۔
اردو نیوز کے نمائندے توصیف رضی کے مطابق شہر کے متوسط علاقوں میں قائم شاپنگ سینٹرز میں دکانیں تو بند ہیں مگر گاہکوں کے لیے مال دکان کے باہر ٹھیہ لگا کر، یا سڑک کنارے سیلز مین کھڑے کر کے بیچا جا رہا ہے۔ واٹر پمپ، ڈاکخانہ، لیاقت آباد اور کریم آباد کی مارکیٹ میں پانچ بجے سے پہلے لوگوں کا بے پناہ رش دیکھنے میں آتا ہے، اور اشیائے ضرورت کی دکانوں کی آڑ میں کپڑے کے بیوپاری اور درزی بھی اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔

بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن کے دوران کاروبار جاری رکھنے کے نئے طریقے متعارف کرائے گئے ہیں۔

درزیوں نے کاریگروں کو بلا کر بند دکانوں کے اندر کام شروع کر دیا ہے، اور گاہکوں کو فون کر کے بلا کر ان سے باہر کھڑے ایجنٹ کے ذریعے آرڈر وصول کر رہے ہیں۔
نارتھ کراچی کی رہائشی ایک خاتون نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے ٹیلر کی حیدری مارکیٹ میں دکان ہے، کچھ دن قبل ان کا فون آیا تھا کہ وہ شٹر ڈاؤن میں ہی کام کر رہے ہیں اور آرڈر بھی لے رہے ہیں، جس کے بعد جا کر وہ عید کے جوڑے سلنے کے لیے دے آئیں۔
سڑک کنارے ایجنٹ کے ذریعے مال کی فروخت کا سلسلہ شہر کی موبائل اور الیکٹرانک مارکیٹ میں بھی جاری ہے۔ ان مارکیٹوں میں سامنے کی دکانیں اور مارکیٹ میں داخلی دروازے بند ہوتے ہیں مگر اندر کی دکانوں اور گودام کے ذریعے مال بیچا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹیں تو ظاہری طور پر بند ہیں مگر لوگوں کا رش  ہے۔

کراچی میں درزیوں نے کاریگروں کو بلا کر بند دکانوں کے اندر کام شروع کردیا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

 لاہور میں ریڑھیوں کا سہارا
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں خواتین کو خریداری کے لیے کچھ زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ اردو نیوز کے نمائندے رائے شاہنواز کے مطابق  تمام بازار اور مارکیٹیں بند ہیں پھر بھی بازاروں میں خریدوفروخت جاری ہے۔ دکاندار اشیاء ہتھ ریڑھیوں پر بیچ رہے ہیں۔ جس میں کپڑے، جوتیاں اور دیگر سامان شامل ہے۔
پنجاب حکومت کے ایک حکم نامے میں صوبہ بھر میں ریڑھیوں پر سامان بیچنے کی اجازت دے گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے عید کے دن قریب آ رہے ہیں۔ بازاروں میں رش بڑھ رہا ہے۔ اور تقریباً ہر طرح کی چیزیں جو پہلے دکانوں سے دستیاب تھیں اب دکانوں کے آگے ریڑھیوں پر بیچی جا رہی ہیں۔

پنجاب حکومت کے ایک حکم نامے میں صوبہ بھر میں ریڑھیوں پر سامان بیچنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

کوئٹہ میں گذشتہ سال کی نسبت خریدار کم
بلوچستان  کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے صوبے  بھر سے لوگ عید کی خریداری کے لیے کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں۔
اردو نیوز کے نمائندے زین الدین احمد کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت خریدار کم ہیں لیکن پھر بھی شہر کے بازاروں اور مارکیٹوں میں رش ہے۔ ان دنوں  زیادہ لوگ عید کے لیے کپڑوں کی خریداری کررہے ہیں ۔ شہر کے بڑے شاپنگ مالز بند ہیں تاہم حکومتی پابندی کے باوجود کپڑوں، جیولری، کاسمیٹیکس اور جوتوں کی چھوٹی مارکیٹیں اور دکانیں جزوی طور پر کھلی ہیں۔

 پنجاب میں کئی دکاندار اپنی دکانوں کے باہر سامان لگا کر کاروبار کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

مسجد روڈ پر واقع ’کٹ پیس‘ کے نام سے کپڑوں کی سب سے مشہور مارکیٹ میں دکاندار بند دکانوں کے باہر کھڑے ہوکر خریداروں کی تلا ش میں رہتے ہیں۔ دکاندار تقریباً ہر گزرنے والے سے پوچھتے ہیں ’کپڑے چاہئیں؟' گاہگ ملنے پر دکاندار انہیں تہہ خانوں میں موجود سٹور روم یا پھر شٹر گرا کر دکان کے اندر لے جا کر کپڑے فروخت کرتے ہیں۔
یکم مئی، ہفتہ اور اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے تین روز تک بینک بند تھے ۔ پیر کو بینکوں اور اے ٹی ایمز پرتنخواہیں وصول کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ جناح روڈ پر واقع بینکوں کے باہر صارفین کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔ تنخواہیں نکالنے کے بعد لوگوں نے عید کی شاپنگ کی۔

خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں شٹر گرا کر کاروبار جاری

اردو نیوز کے نامہ نگار شاہد عباسی کے مطابق خیبرپختونخوا میں سرکاری طور پر لاک ڈاؤن کے تحت مخصوص دکانوں کے علاوہ سب کچھ بند ہے۔ شام چار بجے کے بعد میڈیکل سٹور اور دودھ دہی کی دکانوں کے علاوہ دیگر دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ہزارہ ڈویژن کے ہیڈکوارٹر ایبٹ آباد اور ملحقہ اضلاع ہری پور و مانسہرہ کے نمایاں بازاروں میں شٹر گرا کر کاروبار جاری ہے۔ 
بازار پہنچنے والے افراد کو اردگرد موجود دکانوں کے ملازمین پہچان کر شٹر کھول دیتے ہیں اور خریداری کے بعد عقبی راستوں سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ڈیپارٹمنٹل سٹورز اور متعدد کاروبار جنہیں مخصوص اوقات میں کام کی اجازت ہے وہ مرکزی داخلی و خارجی راستے بند کر لیتے ہیں تاہم سائیڈ یا عقب میں موجود راستوں سے صارفین کو خدمات فراہم رکھے ہوئے ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: