Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدیوں پرانی مساجد کی بحالی کا منصوبہ

منصوبے کے تحت مزید 100 ایسی قدیم  مساجد فہرست میں شامل ہیں (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں قدیم مساجد کی از سر نو مرمت اور تزئین و آرائش کا منصوبہ جاری ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے وسیع عریض خطے میں موجود  بہت سی ایسی مساجد  ہیں جو سینکڑوں سال قبل تعمیر کی گئیں اور اب انہیں مرمت کی ضرورت ہے۔

تاریخی مساجد کی تزئین و آرائش کے لیے باقاعدہ مرکز قائم ہے(فوٹو عرب نیوز)

قدیم اور تاریخی مساجد کی تزئین و آرائش کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان منصوبے کے تحت 57 ملین ریال کی منظوری  سے سعودی عرب کے دس مختلف علاقوں میں 30 مساجد کی ازسرنومرمت کی گئی ہے۔ یہ بحالی منصوبہ محدود مدت میں مکمل کیا گیا ہے۔
اسی منصوبے کے سلسلے میں ایک سو مزید ایسی قدیم  مساجد رکھی گئی ہیں جن کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت بحال کی جائے گی۔
ان منصوبوں میں مساجد کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے ، ماضی کی شناخت اور جدید توازن برقرار رکھاجائے گا اور مستقبل میں اس کی دیکھ بھال کو یقینی بنایا جائے گا۔

قدیم اور تاریخی مساجد کی تزئین و آرائش کی جارہی ہے(فوٹو عرب نیوز)

قبل ازیں قدیم مساجد کی بحالی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری  نجی عطیات کے ذریعے کی جاتی تھی یا پھر یہ ذمہ داری خیراتی اداروں نے بھی اٹھا رکھی تھی جب کہ اب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے تاریخی مساجد کی تزئین و آرائش کے لیے باقاعدہ مرکز قائم کردیا ہے۔
مسجد نہ صرف اینٹوں اور سیمنٹ کی عمارت ہوتی ہے بلکہ اس کی موجودگی  مذہبی  اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اس کا عظیم مقصد ہوتا ہے۔
منصوبے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مہیسن القرنی نے  بتایا ہے کہ مملکت کے مختلف حصوں میں موجود  ان مساجد کی علاقائی ساخت اور ڈیزائن کے حوالے سے نمایاں  تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ولی عہد کی ہدایت کے مطابق مساجد کی قدیم شناخت برقرا ر رکھنے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔

مساجد کی ماضی کی شناخت اور جدید توازن برقرار رکھاجائے گا(فوٹو عرب نیوز)

ہر مسجد کی اصل شناخت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ماہرین  اور پیشہ ور کارکنوں کا تعاون حاصل ہے۔
عمارتوں کی ڈیزائنگ اور ماحول کے مطابق  تیار کرنے کی ماہر ڈاکٹر فاطمہ جبران نے بتایا ہے کہ سول انجینئر، ڈیزائنر، ماحولیات کے ماہرین کے علاوہ آرائش و تزئین کے فنکاروں سے مدد لی  جائے گی۔
ڈاکٹر فاطمہ جبران نے مزید بتایا کہ  تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن مساجد پر کام ہو رہا ہے ان  میں شامل 60 سال سے لے کر 1400 سال تک قدیم  مساجد ہیں۔
بحالی منصوبے کے اصل مقصد  بنیادی ڈھانچوں میں کم سے کم تبدیلی لا کر ثقافتی ورثہ کی ان  یادگاروں کو مستقبل کے لیے محفوظ بنانا ہے۔
ڈاکٹر مہیسن القرنی نے کہا ہے کہ مساجد کی ڈیزائننگ اور تعمیر میں علاقے کے موسم کے لحاظ سے  مختلف قسم کا مواد استعمال کیا گیا ہے۔

ڈیزائنر اور ماحولیات کے ماہرین سے مدد لی جائے گی(فوٹو عرب نیوز)

مغربی خطے کے پہاڑی علاقوں  کے دیہات میں مساجد مختلف سائز کے پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ایسی مساجد طائف اور جازان  کے علاقوں میں موجود ہیں جن کی دیواریں پتھروں جب کہ  چھت گھاس،  درخت کی شاخوں اور جھاڑیوں کی مدد  سے بنی ہوئی ہیں۔
عسیر ریجن میں مساجد کی عمارتیں بارش کے بچاو کی غرض سے تیار کی گئی ٹائلوں سے بنی نظر آتی ہیں۔ یہ ٹائلیں عمارت کو بارش سے محفوظ رکھنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔

جزیرہ فرسان میں کچے پتھروں اور کھجور کے پتوں سے تعمیرشدہ مساجد ہیں (فوٹو عرب نیوز)

مکہ ریجن میں جریر البجالی کے نام سے جانی جانے والی قدیم مسجد 631 ہجری کے زمانے کی تصور کی جاتی ہے۔یہ مسجد طائف سے تقریبا 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اس کے بارے میں  بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی نے تعمیر کی تھی جب کہ دیگر کا کہنا ہے کہ یہ  محض ان صحابی سے موسوم ہے۔
اس کی چھت کے لیے لکڑی کے موٹے تنے استعمال کئے گئے ہیں۔
بحراحمر میں جزیرہ فرسان میں بھی کچے پتھروں، لکڑی کے شہتیروں اور کھجور کے پتوں اور مٹی اور گارے سے تعمیرکردہ مساجد  ہیں۔
از سر نو تعمیراتی عمل  اور تزئین و آرائش کے بعد یہ مساجد عام نمازیوں کے لیے جلد کھول دی جائیں گی۔

شیئر: