Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراق کی آخری شہزادی: تاریخی اور ہنگامہ خیز باب کا اختتام

شہزادی بادیہ بنت علی جب اس بغاوت کے بارے میں بات کرتیں جس میں ان کے خاندان کے بہت سے افراد ہلاک اور عراقی بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا، ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔
انہوں نے 14 جولائی 1958 کا وہ خوفناک دن بغداد کی ایک عمارت کی بالکونی سے دیکھا جب رحاب محل سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔
سینچر کو لندن میں سو سال کی عمر میں وفات پا جانے والی بادیہ عراق کی زندہ بچ جانے والی آخری شہزادی تھیں۔
ان کی وفات کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے اس تاریخی اور ہنگامہ خیز باب کا بھی خاتمہ ہو گیا جو انہیں بچپن میں مکہ سے لے کر خطے کے بڑے بڑے محلات اور پھر برطانیہ تک لے گیا۔
عرب نیوز پر شائع ہونے والی ایک مضمون کے مطابق ان کا تعلق ہاشمی شاہی گھرانے تھا۔ سنہ 1920 میں دمشق میں پیدا ہونے والی شہزادی بادیہ بادشاہ علی بن الحسین کی صاحبزادی تھیں۔ علی بن الحسین نے مغربی عرب میں کچھ عرصہ تک حجاز پر بھی حکومت کی اور ’گرینڈ شریف آف مکہ‘ کا خطاب بھی حاصل کیا۔
ان کے دادا حسین بن علی نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بٖغاوت کی قیادت کی تھی اور 1916 میں حجاز میں اقتدار سنبھالا تھا۔

 فیصل دوئم کے تقریب حلف برداری

سنہ 1925 میں سعودی عرب کے بانی ابن سعود کے ہاتھوں بادشاہت کا خاتمہ ہونے کے بعد شہزادی بادیہ اور ان کا خاندان مکہ چھوڑ کر عراق منتقل ہوا۔
شہزادی بادیہ کے ایک چچا سلطنت عثمانیہ کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد انگریزوں کی مدد سے اردن میں بادشاہت قائم کر چکے تھے جبکہ دوسرے چچا فیصل اول 1921 میں عراق کے بادشاہ بنے۔
ننھی شہزادی کے لیے بغداد پہنچنا بہت خوشی اور جوش کا باعث بنا اور وہ اس کی گرویدہ ہوتی چلی گئیں۔
سنہ 2012 میں شرقیہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادی نے بغداد کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا:
’بغداد بہت خوبصورت شہر تھا، اس کے مقابلے میں موم بتیوں سے روشن ہونے والا عمان بہت چھوٹا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بغداد میں بجلی تھی، وہاں پُل اور پہاڑ کے دامن میں سڑک بھی تھی۔ بغداد بہت خوبصورت تھا اور مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔‘

 فیصل اول کی حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی 

فیصل نے 12 سال تک وہاں حکومت کی اور 48 سال کی عمر میں دل کے دورے سے وفات پانے کے بعد ان کے بیٹے غازی نے 1933 میں تاج پہنا۔ انہوں نے شہزادی بادیہ کی بہن شہزادی عالیہ سے شادی کی۔
چھ سال بعد جب بغداد میں ایک ایک کار ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تو اس وقت ان کے بیٹے فیصل دوئم صرف تین سال کے تھے۔
یوں ایک بار پھر بادیہ اقتدار کی راہداریوں میں رہیں کیونکہ ان کے بھائی ولی عہد عبداللہ ایک ایسے نائب کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے بچے کی بادشاہت کے لیے معقول عمر تک پہنچنے تک حکومتی معاملات چلانا تھے۔
برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد فیصل دوئم نے اٹھارہ سال کی عمر میں 1953 میں تخت سنبھالا۔
ایک ذہین انسان کے قدرتی وسائل سے مالامال ملک کا سربراہ بننے کے بعد توقع یہی تھی کہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
تیل کی بدولت حاصل ہونے والی آمدن بڑھتی چلی گئی اور ملک میں تیزی سے صنعتیں پھیلنے لگیں۔
بات یہیں تک نہیں تھی، سماجی لحاظ سے ایک دراڑ بھی وجود رکھتی تھی۔ ملک کے غریب لوگوں کا خیال تھا کہ عراق برطانیہ اور مغربی ممالک سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی عرب قومیت پسندی نے عراق اور برطانیہ کے تعلق کو متاثر کرنا شروع کیا جو 1956 میں نہر سویز کے بحران پر شدید تر ہو گیا۔

اگر شہزادی بادیہ 14 جولائی 1956 کو رحاب محل میں ہوتیں تو یقیناً قتل کر دی جاتیں کیونکہ اسی روز عبدالکریم قسیم اپنی فوجوں کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔
منحرف افسر نے جب ٹینکوں کو فائر کھولنے کا حکم دیا اس سے چند لمحے قبل ہی بادشاہ فیصل دوئم اور خاندان کے دوسرے افراد پچھلے دروازے سے نکلے تھے۔
بادشاہ کے ساتھ قطار میں کھڑے کر کے مارے جانے والوں میں شہزادی بادیہ کا بھائی ولی عہد عبداللہ، ان کی بہن عبادیہ اور بھابی شہزادی ہیام شامل تھیں۔
شہزادی بادیہ نے باغیوں کا شور عراق کے دارالحکومت میں سنا جہاں وہ اپنے شوہر شریف الحسین بن علی اور تین بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔
شہزادی نے انٹرویو میں کہا تھا: ’میں نے صبح چھ ساڑھے بجے کے قریب ایک زوردار دھماکہ سنا، گھبرا کر بستر سے نکلی اور حسین سے پوچھا  یہ آواز کیسی تھی؟ میں نے رحاب محل کی طرف دیکھا تو اس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔‘
انہوں نے بادشاہ فیصل دوئم سے موت سے چند لمحے قبل بات کی، انہوں نے حفاظت کے لیے گارڈ بھجوانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
اسی لمحے ایک شاہی ملازم خون میں تر بھاگتا ہوا وہاں پہنچا اور چیخ کر کہا: ’انہوں نے بادشاہ اور ان کے خاندان والوں کو قتل کر دیا ہے۔‘
شہزادی نے بتایا: ’میں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور جب بچوں نے مجھ سے پوچھا کیا ہوا، میں نے انہیں بتایا، انہوں نے میرے خاندان کو قتل کر دیا ہے۔‘
اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ وہ سعودی عرب کے سفارتخانے پہنچیں جہاں ان کو ایک ماہ تک پناہ دی گئی۔
سعودی فرمانروا شاہ سعود نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ خاندان کو زندہ ملک سے نکالا جائے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ’شاہ سعود نے سفیر کو ہمارا خیال رکھنے کا کہا تھا‘
اس انٹرویو میں شہزادی بہت  پریشان لگ رہی تھیں اور زندگی کے ان زندگی کے کٹھن لمحات کو یاد کرتے ہوئے لرز رہی تھیں۔
سعودی سفارتخانے سے نکلنے کے بعد وہ مصر گئیں، اس کے بعد سوئزرلینڈ بھی رہیں تاہم اس کے بعد برطانیہ میں رہائش پذیر ہوئیں جہاں وہ اپنی موت تک رہیں۔

فیصل دوئم پانچ سال کی عمر میں 

شاہی خاندان کے خلاف ہونے والی بغاوت اور خونی واقعات عراق کے لیے ایک ایسا موڑ ثابت ہوئے جس کے بعد بغاوتوں، آمریت اور تصادم کے ادوار شروع ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
شہزادی بادیہ کے بیٹوں میں سے ایک شریف علی الحسین نے صدام حسین کے خلاف کام کیا اور 2003 میں امریکی حملے کے بعد خود کو آئینی طور پر بادشاہ بنائے جانے کی کوششیں کیں۔
اتوار کو شہزادی بادیہ کو دونوں ملکوں میں خراج تحسین پیش کیے گئے  پہلا وہ جہاں ان کے خاندان راج کیا اور دوسرا وہ جہاں وہ اب بھی کر رہا ہے۔
عراق کے صدر بہرام صالح نے ان کے بیٹے کو تعزیتی پیغام بھجوایا ہے۔
’شہزادی بادیہ بنت الی کے انتقال پر ہمارے دل مغموم ہیں‘
وزیراعظم مصطفیٰ الخادمی جو اس وقت عراق کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں انہوں نے بھی شہزادی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’شہزادی بادیہ بنت علی کی وفات کے ساتھ ہی عراق کی جدید تاریخ کا ایک روشن اور اہم باب بند ہو گیا۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’وہ اس سیاسی و سماجی دور کا حصہ تھیں جب عراق بہترین وقت سے گزر رہا تھا، اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے، میں ان کے خاندان والوں سے دلی تعزیت کرتا ہوں۔‘
اردن جہاں آج بھی ہاشمی بادشاہت موجود ہے، وہاں کے بادشاہ عبداللہ دوئم نے کہا ہے ’پورا شاہی خاندان شہزادی کی وفات پر سوگ میں ہے۔‘

شیئر: