جنگ عظیم دوئم اپنے عروج پر تھی۔ برطانوی فوج کے برما کے قصبے میکٹیلا میں تعینات یونٹ جاپانی فوج کے پے درپے حملوں کا نشانہ تھی۔
جب بھی جاپانی فوج بمباری کرتی، جہاں میکٹیلا کے شہری اپنی جان بچانے کے لیے پناہ ڈھونڈتے وہیں فوجی جوان بھی نقصان سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگتے۔
انہی جوانوں میں سے ایک وجیہہ سپاہی مظفر خان کبھی سنتری کی ڈیوٹی کر رہا ہوتا، کبھی بمباری سے متاثرہ شہریوں کی مدد اور کبھی یونٹ کے دیگر فرائض انجام دیتا۔
اس کی یونٹ کے آس پاس سے گزرتی ایک نوجوان تیکھے نقوش والی دھان پان لڑکی اس کو دیکھے جاتی۔ جواب میں مظفر خان بھی اس کو دیکھتا۔
مزید پڑھیں
-
’شہد کی مکھیوں کی پرورش سے عشق‘Node ID: 432426
-
’بادلوں اور بجلی کی چمک سے عشق ہے‘Node ID: 437426
-
امرتا کے دو عشق: لاہور اور ساحر لدھیانویNode ID: 440756
وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرنا چاہتے تھے لیکن ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے تھے۔ ابھی انہوں نے اشاروں کی زبان میں گفتگو کا ہنر سیکھنا شروع ہی کیا تھا کہ ایک دن وہ لڑکی دوڑے دوڑے مظفر خان کی بیرک پہنچ گئی۔
اس نے اشاروں اشاروں میں مظفر خان کو بتایا کہ اس کے والدین جاپانی فوج کے تازہ حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور اب اس بھری دنیا میں اس کا کوئی نہیں۔ وہ اس سے شدید محبت کرتی ہے اور وہ اس کو اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے جائے کیونکہ اس کے علاوہ وہ کسی اور پر اعتبار نہیں کر سکتی۔
مظفر خان اپنے گھر سے ہزاروں میل دور تھا لیکن شادی میں وہ گھر والوں کو شریک کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اس لڑکی کو ساتھ لیا اورصوبہ پنجاب کے علاقے چکوال میں اپنے گاؤں ڈھڈیال لے آیا۔
یہاں آ کر اس نے اس کو اپنی زبان سکھائی، رہن سہن، روایات اور اسلامی اقدار سکھا کر ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس لڑکی کا اسلامی نام عائشہ بی بی رکھا گیا۔
عائشہ مظفر خان کے ساتھ اپنی زندگی میں اتنی مگن ہوئی کہ اپنا پہلا نام، اپنے والد کا نام اور رہن سہن تک بھول گئی۔ اس کو صرف اتنا یاد رہا کہ اس کی ماں کا نام سیتا تھا، والد کی کریانے کی دکان تھی اور وہ ماں کے ساتھ مندر جایا کرتی تھی۔
عائشہ اور مظفر خان کا ساتھ 70 سال سے زائد تک قائم رہا، لیکن ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔ اس سفر میں عائشہ نے مظفر خان سے بارہا اصرار کیا کہ وہ اولاد حاصل کرنے کی خاطر دوسری شادی کر لے، لیکن مظفر خان نہ مانے اور عائشہ کی جگہ کسی اور کو دینے سے انکار کر دیا۔
سال 2015 میں ایک طویل رفاقت کے بعد مظفر خان بالآخر عائشہ بی بی کو تنہا چھوڑ کر اس جہان سے کوچ کر گئے۔
ان کی وفات کے بعد عائشہ بی بی نے ایک ملاقات میں اس نمائندے کو بتایا کہ مظفر خان کی خواہش تھی کی میں پہلے مروں اور ان کے ہاتھوں میں جان دوں ، لیکن ان کی قسمت میں ایسا نہیں تھا اور وہ عائشہ بی بی سے پہلے فوت ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہتر ہوتا کہ وہ مظفر خان سے پہلے فوت ہوتیں اور ان کے ہاتھوں میں جان دیتیں، لیکن اللہ کو ایسا منظور نہیں تھا۔
عائشہ بی بی نے بتایا کہ جب ان کی مظفر خان سے ملاقات ہوئی تو دونوں کو ایک دوسرے کی زبان نہیں آتی تھی اور پہلے پہل انہوں نے اشاروں کنایوں میں بات چیت شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں مظفر خان سے پہلی نظر میں ہی محبت ہو گئی تھی۔
مظفر خان کے بھتیجے اظہر اعوان کے مطابق عائشہ بی بی اور ان کے چچا ازدواجی زندگی کے دوران کبھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں جھگڑے اور عائشہ بی بی ان کے چچا کی وفات کے بعد اکثر انہیں یاد کرکے روتی رہی ہیں۔
وہ خود کو بہت تنہا محسوس کرنا شروع ہو گئیں اور اکثر روتے ہوئے کہتیں، ’مظفر خان تم مجھے کس کے سہارے چھوڑ گئے۔‘
مظفر خان کی یاد میں انہوں نے اپنی یادداشت ہی کھو دی اور گذشتہ ماہ ان کے حواس بالکل ختم ہو گئے۔
بالآخر منگل کے روز انہوں نے ہمت ہار دی اور اپنی جان وار دی۔
وہ عالم بالا میں اپنی محبت مظفر خان کے پاس پہنچ گئیں۔ اور ان کے جسم کو ڈھڈیال کے قبرستان میں مظفر خان کی قبر کے قریب دفن کردیا گیا ۔
ان کی قبر پر مٹی پڑتے ہی برما کے میدان جنگ سے جنم لینے والی یہ داستان محبت چکوال کی مٹی میں دفن ہوگئی۔
-
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں