Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنہری موقع بار بار نہیں ملتا

1974 کے بعد اس خوش قسمت گھڑی کو آنے میں چار دہائیاں لگ گئیں (فوٹو: اے ایف پی)
یوں تو عید الفطر سے جڑی بچپن کی بہت سی ایسی یادیں ہیں جو ذہن میں آتی ہیں تو بے اختیار دل مسکرا اٹھتا ہے۔ عیدی، مہندی، چاند رات، زرق برق کپڑے۔۔۔لیکن ایک واقعہ جو بڑی اچھی طرح مجھے یاد ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ ہم سب گھر والے نیت کر کے سوئے سحری کی، صبح آنکھ کھلی تو عید کی نماز کے اعلانات ہو رہے تھے۔
وہ دن اور آج کا دن، پوری قوم ہمیشہ آخری لمحہ تک گو مگو  کی کیفیت میں ہی رہی ہے کہ بھلا کل عید ہے یا روزہ۔ والد صاحب تراویح اور عید کی نماز کے اندازے لگاتے رہتے ہیں اور والدہ کے تخمینے سویوں اور شیر خرما کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں۔
کیا عجب بات ہے کہ 1974 کے بعد، اس خوش قسمت گھڑی  کو آنے میں چار دہائیاں لگ گئیں جہاں آج تمام ملک اکھٹے عید منا رہا ہے۔

 

ملک میں اوراختلافات تو کم نہیں ہیں مگر عید پر اختلاف بھی ایک مستقل مسئلہ بن گیا جس کے ساتھ قوم نے سمجھوتہ کر لیا ہے ۔ ہم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ مہذب دنیا اس کے بارے میں کیا تاثر لیتی ہوگی۔ بھلا سوچیں لندن یا نیو یارک میں لوگوں کو آدھی رات تک پتہ ہی نہ چلے کہ کل کرسمس یا نیو ایئر ہے یا نہیں؟
بہر حال گزشتہ دو سال سے رویت میں سائنسی رائے کو فوقیت دینے کی جو بحث چھڑگئی ہے وہ کئی دہائیوں بعد ہی صحیح، لیکن امید کی ایک کرن کی طرح ہے۔ اور مسئلہ صرف سائنس یا روایتی رویت کا نہیں، کیونکہ جب سائنس کی اس معاملے میں انٹری نہیں بھی ہوئی اس وقت بھی ایک صوبہ یا کافی علاقے علیحدہ عید مناتے۔ ایسا بھی ہوا کہ صوبے کے وزیر اعلی نے عید منائی اورگورنر نے روزہ رکھا۔
گزشتہ دو سالوں سے وزارت سائنس کی تجاویز کے بعد جس طرح خان صاحب کی اپنی ہی کابینہ میں اس پر رائے تقسیم تھی ویسے ہی ملک بھر میں ایک زبردست بحث نے ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ ظاہر ہے، ایک رسم یا روایت جسے سب دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں: ٹی وی پر علما دور بین سے چاند دیکھنے کے کوشش کریں، اسکے بعد پریس کانفرنس ہو اور پھر سڑکوں پر رش اور فون پر میسجز کی بھرمار ہو جائے۔ ایسے میں ایک آن لائن ایپ یا سائنسی فارمولے سے اتنے اہم تہوار کا اعلان آخر ہو کیسے سکتا ہے اور وہ بھی کچھ دن پہلے۔

ایک طرف جدت ہو اور دوسری طرف روایت، تو انتخاب کس کا کیا جائے؟ (فوٹو: سوشل میڈیا)

 کافی لوگوں کو یہ نیا تجربہ ہضم نہیں ہوا۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف غیر یقینی صورتحال ہو اور دوسری طرف پہلے سے تعین ہو، ایک طرف جمود ہو اور دوسری طرف تبدیلی، ایک طرف جدت ہو اور دوسری طرف روایت، تو انتخاب کس کا کیا جائے؟
دنیا میں اگر کوئی چیز مسلسل ہے تو وہ ہے تبدیلی کا سفر۔ یہ سفر ہی قوموں کی سمت کاتعین کرتا ہے ۔ یہ بات تو پہلے سے طے شدہ ہے کہ علما بھی جدید آلات کا سہارا ہی لیتے ہیں تو پھر مکمل جدید سسٹم کو اپنانے میں کیا قباحت ہے۔ رہ گیا عید کا اعلان وہ حکومت خود طے کرے کہ کس طریقہ کارکے تحت ہونا ہے۔ بے شک یہ تمام استحقاق ریاست کا ہی ہے کہ وہ اپنے وسائل کو کیسے استعمال کرتی ہے، وہ تعین کرے کہ کون سا کام کسے سونپنا ہے۔  بہتر  ہے کہ اس میں نمائندگی کوئی کابینہ کا رکن ہی کرے کیونکہ کابینہ ہی سب سے فیصلہ کن فورم ہے۔ مذہبی امور، انفارمیشن اور سائنس کے وزرا کو اس میں ذمہ داری لینی ہوگی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی نے تو اس میں بہر حال لیڈ لے لی ہے۔ ابھی تک تمام تاریخیں وزارت سائنس نے خوب ٹھیک ٹھیک بتائی ہیں۔ پانی کے بہاؤ کے خلاف تیرنا آسان نہیں۔ اگر خان صاحب کی حکومت میں فواد چوہدری نے یہ مشکل کام خود اپنی ذمہ لے لیا ہے، تو ریاست کو بھرپور طریقے سے ان کی پشت پناہی کرنی چاہیے۔

یہ سنہری موقع ہے کہ رویت کا نیا نظام وضع کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

اگر تحریک انصاف کی حکومت میں تمام پاکستانی ایک عید پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یکجا ہو جاتے ہیں، تو اس میں عرق ریزی کوئی بھی کرے، اس کا کریڈٹ خان صاحب کی حکومت کو ہی جائے گا۔ کابینہ کے دو تہائی وزراء نے میڈیا پر فواد چوہدری کی حمایت کی ہے۔ ایسے میں یہ سنہری موقع ہے کہ رویت کا نیا نظام وضع کیا جائے جس میں استحکام اور جدت ہو اور عوام کے اعصاب کا جو ہر سال امتحان ہوتا ہے وہ ختم ہو۔
حال میں زندہ تو ہر کوئی رہتا ہے لیکن تاریخ میں مقام بنانے کا سنہری موقع بار بار نہیں ملتا۔ اس حکومت کے پاس یہ موقع ہے کہ جن چیزوں میں یہ قوم متحد ہوتی ہے اس میں مذہبی تہوار بھی شامل ہوجائیں۔ ہر سال جب ہم عید کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھائیں تو حکومت کا بھی شکریہ ادا کریں جس کی بدولت یہ اتحاد نصیب ہوا مگر سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب کی حکومت یہ قدم اٹھائے گی یا نہیں۔

شیئر: