Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

وزیر ریلوے نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ مزدور سپیشل ٹرینوں میں تبھی سفر کریں جب بہت ضروری ہو (فوٹو: ٹوئٹر)
موت کا ایک دن معین ہے اور ٹرینوں کا بھی۔ لیکن آجکل زندگی کے نارمل رولز معطل ہیں، اس لیے دونوں کب آجائیں کسی کو خبر نہیں۔
اور کس کے پاس شکایت کرنے کا وقت ہے۔ اس لیے جب جو مل جائے بس اسی پر اکتفا کیجیے۔ انڈیا میں جب اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے پریشان مزدوروں کو شدید گرمی میں پیدل چلتے ہوئے دو مہینے ہوگئے تو حکومت نے ان کے لیے خصوصی ٹرینیں چلانے کا اعلان کیا۔
مزدوروں کے پاس تو کوئی کام ہے نہیں، ہوتا تو سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے گھروں کو کیوں لوٹتے؟ لیکن لگتا ہے صحافی بھی بے کار ہی بیٹھے ہیں۔

 

ایک اخبار نے تجزیہ کیا ہے کہ مزدوروں کو لے جانے والی ’سپیشل‘ ٹرینیں کتنی تاخیر سے چل رہی ہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ چالیس فیصد ٹرینیں اوسطاً آٹھ گھنٹے لیٹ چل رہی ہیں۔ دس فیصد چوبیس گھنٹے تک لیٹ تھیں، کچھ تیس گھنٹوں سے بھی زیادہ اور کچھ دو دن یا اس سے بھی زیادہ! صحافیوں کے لیے مشورہ ہے کہ بھائی کیوں اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ ٹرین چل دی ہے تو کبھی نہ کبھی پہنچے گی بھی ضرور۔
ڈرائیور بھی فرصت سے ہیں اور مسافر بھی۔ انڈیا دیکھنے کا اس سے بہتر موقع پھر کب ملے گا۔ گھومتے پھرتے پہنچ جائیں گے۔ گھر والے جب بے چینی میں فون کرکے پوچھیں کہ کہاں پہنچے، تو بس جواب یہ ہی ہونا چاہیے کہ آجکل موت کا بھروسہ نہیں ہے، اور تمہیں ٹرین کے شیڈول کی پڑی ہے۔
اور مسافر بھی ایک دو ہفتے کا وقت تو لیکر چلیں، بڑا ملک ہے، ایسا نہ ہوکہ جب تک ٹرین ان کی منزل تک پہنچے واپس لوٹنے کا وقت ہو جائے۔
اور ہاں، یہاں صحافت کا تقاضہ بھی پورا کرتے چلیں، وزیر ریل نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ کچھ ٹرینیں راستے میں ’بھٹک‘ گئی تھیں اس لیے ایک دو دن کی تاخیر سے اپنی منزلوں پر پہنچیں۔
بات بات میں یوں موت کا ذکر کہاں اچھا لگتا ہے لیکن انہیں سپیشل ٹرینوں میں 80 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ایک شخص کی لاش تو دو تین دن بعد ملی جب ٹرین کی صفائی کی جارہی تھی۔
اس لیے ظاہر ہے کہ وزیر ریلوے پیوش گوئل بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مزدور سپیشل ٹرینوں میں تبھی سفر کریں جب بالکل ضروری ہو۔ یہ نہ سوچیں کہ چلو سیر و تفریح کے لیے چلتے ہیں۔
’میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بہت بیمار لوگ، حاملہ عورتیں، بزرگ اور دس سال سے کم عمر کے بچےاگر بہت ضروری ہو تبھی ان ٹرینوں میں سفر کریں۔‘

مزدوروں کے لیے چلائی جانے والی سپیشل ٹرینوں میں 80 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

کوئی پڑھا لکھا اور سمجھدار آدمی ہی یہ مشورہ دے سکتا ہے، مزدوروں کو اتنی سمجھ کہاں۔ بھائی آپ کو گھر جانے کا شوق ستا رہا ہے تو خود جائیے، بیوی بچوں اور ماں باپ کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور فٹنیس بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ٹرین کے سفر کو کوہ پیمائی سے کم نہ سمجھیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان ٹرینوں میں ایسا کیا مسئلہ ہے کہ صرف صحت مند جوان ہی سفر کرسکتے ہیں؟ مسئلہ صرف وہی ہے جو ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے۔ شدید گرمی اور کھانے پینے کی پریشانی۔ خیر وہ جانیں، ریلوے کے حکام اور سپریم کورٹ۔
سپریم کورٹ اس لیے کہ غریب مزدوروں کو درپیش مسائل کی خبر آخرکار عدالت تک بھی پہنچ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے خلاف کچھ بولتے ہوئے تو ڈر لگتا ہے، جیسا میں نے کہا کہ گرمی بھی بہت ہے اور جیلوں میں پہلے سے اتنے لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں کہ سوشل ڈسٹنسنگ کا خواب دیکھنا بھی فضول ہے، اور جم بند ہیں اس لیے فٹنس میں بھی اب وہ پہلے جیسی بات کہاں۔
لیکن بچتے بچاتے آپ کو اتنا تو بتا ہی سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنے ضمیر کی آواز سن لی ہے اور معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ مزدوروں کی گھر واپسی کے لیے مناسب انتظام کرے۔
اس سے صرف دس دن پہلے ایک مختلف بنچ نے یہ کہتے ہوئے مداخلت کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ہم ان لوگوں کو سڑکوں پر چلنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے برعکس کئی ہائی کورٹس نے شروع سے ہی ریاستی حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

عدالت عظمیٰ پر جتنی تنقید ہو رہی ہے اتنی میں نے بہت عرصے سے نہیں دیکھی۔ ایک سابق جج نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ بحران پر اگر سپریم کورٹ کی مارکنگ کرنی ہوتی تو عدالت کو وہ ’ایف‘ گریڈ دیتے۔ یہ تو اچھا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں امتحان معطل ہیں۔
تنازع کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ سالیسٹر جنرل نے حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ سب ٹھیک ہے اور حالات کنٹرول میں ہیں، اور عدالت نےان کی بات پر بھروسہ کر لیا۔
اب شکایت کرنے والے تو شکایت کریں گے لیکن حکومت کے وکیل اگر یہ کہیں کہ اب سڑکوں پر کوئی مزدور نہیں ہے تو آپ کس کی بات مانیں گے؟ ان بے کار صحافیوں کی جو روزانہ ان کی درد بھری کہانیاں بیان کر رہے تھے یا سرکاری وکیل کی؟
ظاہر ہے کہ سرکاری وکیل کی۔ صحافی تو بس بلا وجہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں۔ توشار مہتا گزشتہ ہفتے بھی حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ کچھ مٹھی بھر لوگ ملک کو بدنام کرنےمیں لگے ہوئے ہیں، انہیں حکومت کا کام نظر نہیں آتا جہاں وزیر پوری پوری رات کام کرتے ہیں۔۔۔اور صحافیوں کو انہوں نے گدھوں سے تعبیر کیا۔ زیادہ تفصیل میں کیا جائیں، بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اسی کو ’شوٹنگ دی میسنجر‘ کہتے ہیں۔
لیکن سپریم کورٹ کے برعکس کئی ہائی کورٹس نے شروع سے ہی ریاستی حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ گجرات کی ہائی کورٹ نے احمدآباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کا موازنہ کسی زیر زمین قید خانے (ڈنجئین) سے کیا تو یہ خبر اخباروں کے فرنٹ پیج پر چھپی۔

سپریم کورٹ کے برعکس کئی ہائی کورٹس نے شروع سے ہی ریاستی حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اتنی بڑی بات ہو اورکچھ نہ بدلے ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ ریمارک پاس کرنے والا بنچ ہی بدل دیا۔ شاید اس لیے کہ ہسپتال میں تو حالات بدلنے میں وقت لگتا ہے، یہ عدالت کا روسٹر بدلنے سے تھوڑا مشکل کام ہے۔ اور نئے بنچ نے کہا کہ اگر ریاستی حکومت کچھ نہ کر رہی ہوتی تو شاید اب تک ہم سب مر چکے ہوتے۔
جب سے کوروناوائرس کا سایہ منڈلا رہا ہے،سپریم کورٹ صرف ارجنٹ کیسز کی ہی شنوائی کر رہی ہے۔اس لیے سماعت کے لیے ایک ایسی پیٹیشن منظور کی گئی ہے جس میں انڈیا کا نام انڈیا سے بدل کر بھارت کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اور آپ اب بھی سوچ رہے ہیں کہ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

شیئر: