Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسمان سے گری آفت نے زمین والوں کو گھر سے بے گھر کر دیا

کچھ سال ہوئے کہ کراچی کے مظہر شاہ نے بھائیوں کے ساتھ مل کر ماڈل کالونی میں گھر کی تعمیر مکمل کی اور والدہ کے ساتھ یہاں رہائش پذیر ہوئے، ان کے بقول یہ گھر والوں کے لیے محفوظ حصار تھا مگر پی آئی اے طیارہ حادثے میں ان کا یہ حصار تباہ ہوگیا اور اب وہ حکومتی اعانت کے منتظر ہیں اور نہیں جانتے کہ دوبارہ اپنا گھر کب نصیب ہوگا۔  
مظہر شاہ اپنے دو بھائیوں اور والدہ کے ہمراہ ماڈل کالونی کی اس گلی کے مکان میں رہتے تھے جس پر 22 مئی کہ سہہ پہر آفت ٹوٹی۔ آسمان سے گری اس آگ و خون کی قیامت میں خوش قسمتی سے ان کے تمام گھر والے تو محفوظ رہے مگر گھر محفوظ نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر کا آدھا حصہ تباہ ہو چکا ہے جبکہ دیگر حصے بھی گھنٹوں شدید آگ کی لپیٹ میں رہنے کے باعث خستہ حالی کا شکار ہیں اور انہیں گرا کر تعمیر کرنا پڑے گا۔
'ہمارا گھر پانچ گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہا، وہ بھی جیٹ فیول کی شدید آگ جس میں سریا تک پگھل جاتا ہے، ایسے میں گھر کا جو ڈھانچہ کھڑا رہ بھی گیا ہے وہ اندر سے مخدوش ہے اور اسے گرا کر دوبارہ سے تعمیر کرنا ہوگا، مگر ہماری اتنی استطاعت نہیں اور ہم حکومتی اعانت کے منتظر ہیں۔'
پی آئی اے طیارہ حادثے کے فوراً بعد حکومت اور انتظامیہ نے تباہ شدہ گھروں کے رہائشیوں کو شارع فیصل پر واقع ہوٹل منتقل کر دیا جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں مگر آنے والے دنوں کے لیے پریشان ہیں۔ تباہ شدہ گھر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ آخر کب تک وہ ہوٹل میں رہیں گے، ہوٹل کی زندگی گھر کی زندگی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔

مظہر شاہ اپنے دو بھائیوں اور والدہ کے ساتھ اس گلی کے مکان میں رہتے تھے جہاں طیارہ گرا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اظہر شاہ اپنے گھر والوں کے لیے اب اسی علاقے میں کوئی مکان کرائے پر حاصل کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ وہاں کچھ عرصے رہائش اختیار کر سکیں۔ 'ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ گھر کو قابلِ رہائش بنانے میں کتنا عرصہ لگے گا، اب اتنے دن ہوٹل میں تو نہیں رہا جا سکتا اس لیے کرائے پر مکان لیں گے گھر کے قریب ہی، تا کہ اس کی تعمیر کے معاملات بھی دیکھ سکیں۔"
حکومت کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ طیارہ حادثے میں جن افراد کی املاک کا نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کس طرح کیا جائے گا۔  حادثے کو دو ہفتے گزر جانے کے باوجود تباہ شدہ جہاز کا ملبہ اٹھانے کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا اور جائے حادثہ کو اب بھی رینجرز اور پولیس اہلکاروں نے سیل کررکھا ہے اور کسی کو داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

تاحال تباہ شدہ جہاز کا ملبہ اٹھانے کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جائے حادثہ کے رہائشی افراد کے مطابق جہاز کا ملبہ اب بھی گھروں میں موجود ہے جس میں سب سے اہم جہاز کے دوسرے انجن کے پرزہ جات ہیں، جب تک یہ ملبہ نہیں اٹھ جاتا وہ اپنے گھر کا بچا کچا سامان بھی اکھٹا نہیں کر سکتے۔
طیارہ حادثے میں 21 گھروں کو نقصان پہنچا جس میں سے آدھے تقریباً مکمل تباہ ہو چکے، اس کے علاؤہ 15 گاڑیاں اور 20 موٹرسائیکل بھی نذرِ آتش ہوگئیں، املاک کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ کروڑوں میں لگایا جا رہا ہے۔
حادثے کے 10 دن بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل ٹیم نے انجینئیر بینش شبیر کی قیادت میں جائے حادثہ کا دورہ کر کے متاثرہ مکانات کا معائنہ کیا۔ ڈائریکٹر سٹرکچر اور دیگر سینئیر افسران بھی کمیٹی میں شامل ہیں جنہوں نے موقع سے سیمپل اور دیگر شواہد جمع کیے اور اب  رپورٹ میں مکانات کو رہائش کے قابل یا خطرناک قرار دیا جائے گا۔

جائے حادثہ کے رہائشی افراد کے مطابق جہاز کا ملبہ ابھی بھی گھروں میں موجود ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایس بی سی اے حکام کے مطابق ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ آنے میں مزید ایک ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موقع پر ملبہ موجود ہونے کی وجہ سے ایس بی سی اے کی ٹیم  کو معائنے کے لیے آنے میں وقت لگا۔
علاقہ مکین مظہر کے مطابق ان کے گھر کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا۔
'گھر کے ملبے کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنے پر ایک سے سوا کروڑ روپے خرچہ آئے گا، مگر ابھی تک کسی حکومتی ادارے نے ہم سے رابطہ نہیں کیا نہ ہی یہ آسرا دلایا ہے کہ ہماری امداد کی جائے گی۔'

ایس بی سی اے حکام کے مطابق ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ آنے میں مزید ایک ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔ فوٹو: روئٹرز

سیکیورٹی اداروں کی جانب سے علاقہ اور جائے حادثہ سیل کیے جانے سے تباہ شدہ مکانوں کا ملبہ اٹھانے کا کام ابھی تک شروع ہی نہیں کیا جاسکا۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ جب علاقہ کھلے گا تو پہلا مرحلہ تو عمارتوں کا ملبہ اٹھانے کا ہوگا جس کے بعد یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ کس کا کتنا نقصان ہوا۔
اظہر شاہ کا کہنا ہے کہ جب تک گھر کو مسمار کر کے دوبارہ نہیں تعمیر کیا جاتا وہ محفوظ نہیں ہوگا، موجودہ حالت میں تو اس سٹرکچر پہ مزید تعمیر نہیں کی جاسکتی، ایسا کرنا غیر محفوظ ہوگا۔ 'جب تک مضبوط اور محفوظ عمارت تعمیر نہیں ہو جاتی، گھر والوں کو اس میں منتقل نہیں کرسکتے، اور اس میں نجانے کتنا وقت لگے ابھی کوئی اندازہ نہیں۔ ہم پہ تو بیٹھے بٹھائے آفت آ گئی اور گھر سے بے گھر کر گئی۔'

شیئر: