Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہاز سے نہ ڈرنے والی بچی طیارہ حادثے کی زد میں آگئی

’ہم گھر کے باہر بیٹھے تھے کہ جہاز کی بہت تیز آواز آئی، باقی سب تو ڈر کے اندر بھاگ گئیں مگر میں چارپائی پر بیٹھی رہی اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوا اور میں چارپائی سمیت جھلس گئی اور کوئی نکالنے بھی نہ آیا خود ہی ہمت کر کے اٹھی،‘ یہ کہنا تھا 12 سالہ نائیدہ کا جو پی آئی طیارہ حادثے میں زخمی ہوئی اور 9 دن زیرِ علاج رہنے کے باوجود جانبر نہ ہوسکی۔
کراچی کے مضافاتی علاقے جام کنڈ گوٹھ کی رہائشی نائیدہ فلاحی سکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول بند تھے سو وہ اپنی والدہ کے ساتھ کام پر آجاتی تھی۔
ان کی بہن مائرہ کے بقول نائیدہ کو بڑے گھر جانا اچھا لگتا تھا ورنہ وہاں اس کا کوئی کام تو ہوتا نہیں تھا۔
نائیدہ کی والدہ گوٹھ کی دیگر کئی خواتین کی طرح ماڈل کالونی کے گھروں میں کام کرتی ہیں، صبح سویرے تمام خواتین مل کر اس طرف آجاتیں اور دن بھر مختلف گھروں میں کام کے بعد شام تک سب اکھٹے ہو کر ایک ساتھ واپس جاتے تھے۔
رمضان میں واپسی کچھ پہلے ہوجاتی تھی،
جمعہ الوداع کو بھی سہہ پہر تک کافی خواتین کا کام ختم ہوگیا تھا اور وہ دوسروں کے انتظار میں ایک گھر پر جمع ہو رہی تھی۔
عید کی آمد آمد تھی اور تقریباً سب کو ہی گھر والوں نے عید کی مناسبت سے کچھ اضافی رقوم اور کپڑے  دیے تھے ساتھ ہی تاکید بھی کی تھی کہ عید کے روز ضرور آنا اور عیدی لے جانا۔

حادثے  میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے اعلان کردہ 10 لاکھ روپے کی امدادی رقم کے لیے نائیدہ کے گھر والوں کا شمار نہیں کیا گیا (فوٹو: اردو نیوز)

نائیدہ اپنی ممانی اور خالہ زاد بہن کے ساتھ گھر کے باہری حصے میں چارپائی پہ بیٹھی تھی اور والدہ کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک جہاز کی زوردار آواز سنائی دی۔
ماڈل کالونی کے رہائشیوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے اور اب تو نائیدہ بھی اس کی عادی ہو چکی تھی، اس نے باقیوں سے کہا کہ ’ڈرنے کی کوئی بات نہیں جہاز ہی تو ہے‘ یہ کہہ کر وہ وہیں چارپائی پہ بیٹھی رہی، آواز بہت ہیبت ناک تھی سو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں مگر باقی عورتیں ڈر کر گھر کے اندر کے طرف چلی گئیں۔
یہی وہ اندوہناک لمحہ تھا جب لاہور سے کراچی آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 لینڈنگ سے کچھ دیر قبل رن وے سے محض چار کلومیٹر دور گنجان آباد علاقے میں گھروں پہ گر کر تباہ ہوگئی۔
حادثے میں جہاز میں سوار 97 افراد ہلاک ہوئے، دو معجزانہ طور پر بچ بھی گئے۔ مگر جن گھروں پہ آفت گری وہ خوش قسمتی سے سب بچ گئے، نہیں بچ سکی تو 12 سالہ نائیدہ جس نے سکول میں پڑھ رکھا تھا کہ جہاز ہوا میں اڑتا ہے، اور یہی بات اپنے گھر والوں کو بھی بتائی تھی کہ ’ڈرنے کی کوئی بات نہیں جہاز ہی تو ہے۔‘
دھماکہ ہوا تو نائیدہ جس چارپائی پر بیٹھی تھی اس سمیت جل گئی، ان کے بقول کوئی بچانے بھی نہ آیا، کچھ دیر بعد وہ خود ہی ہمت کر کے وہاں سے اٹھی۔ فلاحی ادارے کے رضاکاروں نے نائیدہ، اس کی ممانی اور کزن کو رسکیو کیا، تینوں اس حادثے میں بری طرح جھلس گئی تھیں سو انہیں سول ہسپتال کے برنز وارڈ منتقل کردیا گیا۔
نائیدہ کا جسم 65 فیصد سے زیادہ جھلس گیا تھا اور بہت سے اعضا ناکارہ ہوگئے تھے، وہ نو دن تک زندگی موت کی کشمکش میں رہی مگر جانبر نہ ہوسکی۔

نائیدہ فلاحی سکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی (فوٹو: اردو نیوز)

ماڈل کالونی سے کئی کلومیٹر دور، کھیتوں میں گھرے کچے پکے گھروں میں رہنے والی نائیدہ اپنے گھر خاندان کی پہلی بچی تھی جو واضح طور پہ اردو بولنا اور لکھنا جانتی تھی، اس کے والدہ اور ماموں یہ بات فخر سے بتاتے ہیں جو خود سندھی میں بات کرتے ہیں۔
کراچی شہر کے ان مضافاتی گوٹھوں میں سہولیات کا فقدان ہے، ایسے میں فلاحی ادارے کی جانب سے سکول کا قیام علاقے والوں کے لیے نعمت سے کم نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں میں کام کاج کر کے گزر بسر کرنے والے اس خاندان نے اپنی بچیوں کو سکول میں داخل کروایا، اور اس بات کا انہیں فخر ہے کہ ان کے گھر کی لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
نائیدہ کی ممانی اور خالہ زاد بہن ابھی بھی سول ہسپتال کے برنز وارڈ میں زیر علاج ہیں، مائیدہ کے والد عبدالقادر کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ علاج کی سہولیات سے خاصے غیر مطمئن ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا علاج آغا خان ہسپتال میں کیا جائے۔
دوسری جانب، بیت المال کی جانب سے نائیدہ کے گھر والوں کو پانچ لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں جب کہ وزارت ہوابازی کی جانب سے حادثے کے لواحقین کے لیے اعلان کردہ 10 لاکھ روپے کی امدادی رقم کے لیے نائیدہ کے گھر والوں کا شمار نہیں کیا گیا، شاید اس لیے کہ مائیدہ جہاز میں سوار نہیں تھی، لیکن اس نے تو کتاب میں پڑھ رکھا تھا کہ جہاز ہوا میں اڑتا ہے۔

شیئر: