Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قرضوں کی ادائیگی سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے‘

پاکستان  کے وفاقی وزراء کا کہنا تھا حکومت کی خواہش تھی کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے خرچ ہونے والی رقم عوام پر خرچ ہوتی لیکن واجب الادا قرضوں کے لیے مختص رقم میں کمی ممکن نہیں۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران مشیر خزانہ حفیظ شیخ، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر اور مشیر تجارت عبدالزاق داؤد کا کہنا تھا کہ مشکل معاشی صورت حال میں عوام کو نوکریاں دینا ممکن نہیں ہوتا تاہم کورونا کے باعث مشکل میں آنے والی نوکریوں کے تحفظ کے اقدامات کیے ہیں۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ عوام کی مشکلات کم کرنے اور ریلیف کے لیے بجٹ تیار کیا۔ ’کورونا وائرس کے باعث ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 

 

صوبوں کو دینے کے بعد حکومت کے کل وسائل دو ہزار ارب ہیں۔ ایسے میں قرضوں کی ادائیگی پر 2700 ارب روپے خرچ کیے گئے۔اقتصادی بہتری کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا قرضوں کی ادائیگی جو کہ ماضی کا ملا تحقہ ہے اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ’آئی ایم ایف کے مطابق دنیا کی آمدن 4 فیصد گرے گی۔ اس کے اثرات ہم پر بھی آئیں گے۔ کسی کو یقین نہیں کہ اس کی شدت کتنی اور کب تک ہوگی۔ اس سے معیشت کو 3000ارب روپے کا نقصان متوقع ہے۔ ‘
مشیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان میں ایف بی آر کی آمدن بھی اپنی رفتار سے چلتی تو 4700ارب تک پہنچ سکتے تھے۔ ’اب مشکل سے 3900ارب روپے تک پہنچیں گے ریونیوز میں نقصان 700 ارب روپے تک کا ہے۔ اس کے باوجود واجب الاد قرضوں کی ادائیگی میں کمی ممکن نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر قرض نہ دینا ہوتا تواحساس پروگرام کو تین گنا بڑھا سکتے تھے۔ ’ہم نے حکومت کے اخراجات کم کرنے کے لیے مشکل فیصلے کیے۔  ہم عیاشی کے لیے قرضے نہیں لے رہے۔  ماضی کے قرضوں سے نمٹنے کے لیے قرضے لیے ہیں۔‘
’اس بجٹ کا یہی بنیادی پہلو ہے کہ نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ ہم اخراجات کو کم کررہے ہیں اور کیے ہیں۔ ترقیاتی پروگرام کو بڑھانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق گذشتہ سال کے استعمال شدہ پی ایس ڈی پی میں 100ارب کا اضافہ کیا ہے۔ وزیراعظم کے 1240 ارب کے ریلیف سے بچنے والے پیسے آگے استعمال کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے ایس ایم ایز کے تین ماہ کے بجلی کے بل خود دیے۔

مشیر خزانہ کے مطابق حکومتی اخراجات آمدن سے کم رہے (فوٹو: اے ایف پی)

’زراعت کے لیے 50ارب روپے فراہم کئے گئے۔ کسانوں کے لیے کھاد سستی کی گئی اور سبسڈی دی گئی۔ کارخانوں کو بھی سبسڈی دی گئی اور  چھ لاکھ سے اداروں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ صارفین کے یوٹیلیٹی بلوں میں چھ ماہ کیلئے ریلیف دیا گیا۔ دنیا میں پیٹرولئیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو دیا گیاْ۔‘
مشیر خزانہ کے مطابق حکومتی اخراجات آمدن سے کم رہے جس سے پرائمری سرپلس حاصل ہوا۔ موجودہ حالات میں حکومت کو ٹیکسز کی ضرورت ہے۔
’اگر ٹیکسز نہیں ملیں گے تو قرضے بڑھیں گے۔ حکومت جب آئی تو ڈالر ختم ہوچکے تھے۔ درآمدات کے لیے استعمال ہونے والے ڈالر برآمدات سے کم تھے۔ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 30ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جسے 3 ارب ڈالر تک لے آئے ہیں۔‘
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو دیکھ کر ہی تنخواہیں نہیں بڑھائیں۔ تنخواہیں بڑھانے کی بجائے توجہ روزگار بڑھانے پر ہے۔

’صنعتی پہیہ چلنے سے برآمدات بڑھی ہیں۔ توقع کہ روزگار کے مواقع میں مزید بہتری لائیں گے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس موقع پر وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ معیشت بحران میں ہو تو نوکریاں نہیں ملتیں۔ ’صنعتی پہیہ چلنے سے برآمدات بڑھی ہیں۔ توقع کہ روزگار کے مواقع میں مزید بہتری لائیں گے۔‘
مشیر تجارت رزاق داؤد نے کہا کہ صنعتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دی ہے۔ کوشش ہے کہ برآمدات زیادہ سے زیادہ بڑھیں۔ ’برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسز اور ڈیوٹیز میں بھی رعائتیں دی گئی ہیں۔ برآمد کنندگان کو ری بیٹ کی مد میں آسانیاں دی گئیں۔ ٹیرف میں تبدیلی کا بھی فائدہ ہوگا۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: