Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی این پی کی علیحدگی، کیا ان ہاؤس تبدیلی ممکن ہے؟

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جماعت ن لیگ کے پاس 84 ارکان ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے بعد بھی ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو 13 ارکان سے برتری حاصل ہے۔ 
کسی بھی ان ہاؤس تبدیلی کے لیے ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کو حکمران اتحاد سے توڑنا ہوگا۔ 
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل نے بدھ کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران حکمران اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق حکومت لاپتہ افراد سمیت حکومت میں شمولیت کے لیے کیے گئے وعدے پر عمل درآمد میں ناکام ہوگئی ہے۔ 
عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت صرف چار ووٹوں کی برتری سے وجود میں آئی۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود پارٹی پوزیشن اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔ 
پارٹی پوزیشن کے مطابق 341 کے ایوان میں سے پاکستان تحریک انصاف کی سربراہی میں حکمران اتحاد کے پاس 181 ارکان تھے۔ بی این پی کی حمایت سے محرومی کے بعد یہ تعداد 177 رہ گئی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی کل تعداد 160 ہے جس میں چار ارکان آزاد ہیں جو اپوزیشن کے کسی فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔ 
حاجی منیر خان اورکزئی کی وفات کے باعث قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 45 خالی ہے جس سے اپوزیشن ایک ووٹ سے محروم ہو گئی ہے۔ 
حکمران اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 156 ہے۔ اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں میں مسلم لیگ ق پانچ، ایم کیو ایم سات، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) تین بلوچستان عوامی پارٹی پانچ اور عوامی مسلم لیگ کے پاس ایک نشست ہے۔ 

ق لیگ اور ایم کیو ایم اس وقت تحریک انصاف کی بڑی اتحادی جماعتیں ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اپوزیشن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 84 ہے جبکہ پیپلز پارٹی 55 ارکان کے ساتھ اپوزیشن کی دوسری اور ایوان کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ ایم ایم اے 15, بلوچستان نیشنل پارٹی چار، عوامی نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے پاس ایک ایک نشست ہے۔ چار آزاد ارکان بھی اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہیں جن میں پی ٹی ایم کے محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شامل ہیں۔ 
یاد رہے کہ 2018 میں قائد ایوان کے انتخاب کے وقت ایک سے زائد نشستوں پر ایک ہی شخصیت کی کامیابی کے باعث قومی اسمبلی کی متعدد  نشستیں خالی ہوئی تھیں۔ اس وقت عمران خان کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے 176 ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے مدمقابل شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے تھے۔ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں کسی کے حق میں بھی ووٹ نہیں دیا تھا۔ 
قومی اسمبلی کے موجودہ ایوان میں 271 ارکان براہ راست منتخب ہوکر آئے ہیں۔ 60 خواتین اور 10 ارکان اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر ترجیحی فہرستوں اور براہ راست انتخابات میں ملنے والی نشستوں کے تناسب سے ایوان کا حصہ بنے ہیں۔ 

شیئر: