Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسٹا گرام انفلوئنسرز کے اتنے فالورز کیوں؟

سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ہر اچھی شے واقعی اچھی نہیں ہوتی (تصویر : ان سپلش )
بلاگنگ کسی بھی چیز سے متعلق ہو اس کا ایک اپنا چارم ہوتا ہے۔ بلاگنگ کے ذریعے اپنی سوچ، خیالات دوسروں تک بآسانی پہنچائے جا سکتے ہیں۔ آج کل بلاگنگ کا ٹرینڈ نہ صرف نوجوانوں میں بلکہ بچوں اور بڑوں میں بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ بلاگنگ نے ہر شعبے میں بہت کم وقت میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ فیشن ہو یا سیاحت، کھانا پکانا ہو یا آن لائن کاروبار سیکھنا ہو آپ کسی بھی بلاگر کے سوشل پلیٹ فارمز پر موجود مواد سے بآسانی رہنمائی لے سکتے ہیں۔
کچھ روز سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے بلاگرز اور انسٹاگرام  انفلوئنسرز کو  تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسی حوالے سے ٹوٹئر ہنیڈل  ’بس کر دو‘ نے ایک  تھریڈ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی یہ عام سے لوگ آخر ایسا کیا کرتے ہیں جو لاکھوں کروڑوں لوگ انہیں فالو کرتے ہیں، میں آج تک اس انفلواینسر کے نظریے کو بالکل نہیں سمجھ پائی۔‘
مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انہیں متاثر ہونے کے لیے انفلوئنسرز کی ضرورت نہیں اس کے لیے  کتابیں پڑھیں، میوزک سنیں، ایسی چیزوں سے بھی انسان متاثر ہوسکتا ہے۔ ہمیں ان جیسے لوگوں کو اتنا زیادہ پروموٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ 

ماضی میں کی جانے والی بہت سی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
زیادہ تر انفلوئنسرز اور بلاگرز اپنی زندگی کا ہر پہلو سوشل میڈیا  پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنے فالورز تک پہنچاتے ہیں چاہے وہ نئے کپرے خریدیں یا پھر پرانے کپڑوں کو دوبارہ  کیسے استعمال کریں وہ کیا کھاتے ہیں، کہاں گھومتے ہیں تقریبا ہر چیز سٹوریز کے ذریعے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔
جہاں بہت سے لوگ ایسی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوسکتے ہیں وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کا اس سے موازنہ کرنا شروع کردیتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنی زندگی میں ہونے والی خامیوں کا احساس ہوتا ہے۔
ٹوئٹر صارف بانو نے لکھا کہ ’انسٹاگرام انفلوئنسرز آپ کو ہر طرح کے احساس کمتری کا شکار کر دیتے ہیں پیسے کا، رشتوں کا اور بچوں کا۔ اس لیے ایسے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہیے یہ لوگ ناکامیوں کے بارے میں بات  ہی نہیں کرتے۔‘

 

اس حوالے سے سوشل میڈیا ایکسپرٹ فہد ملک نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایسا ہر گز نہیں ہے کہ انسٹاگرام بلاگرز کو فالو کرنے سے ہر کوئی احساس کمتری کا شکار ہو جائے  بلکہ میرے خیال سے اس سے بہت سی نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں اگر آپ نے کوئی ہیلتھ بلاگر فالو کیا ہوا ہے تو جو باتیں وہ آپ کو بتائیں گے یقیناً مفید ہوں گی۔‘
مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’پاکستان میں بلاگنگ کا تصور حقیقیت سے ہٹ کر ہے۔ یہاں پر سکھانے کے بجائے چیزیں بہت زیادہ مکمل اور بہترین کر کے دیکھائی جاتی ہیں لوگ اپنی پریشانیاں اور کمزوریاں سامنے نہیں لاتے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا کی  لائف شاید بہت سے لوگوں کے بہت زبردست اور بے داغ لگتی ہے اس وجہ سے کچھ حد تک  کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ چیز احساس کمتری پیدا کرسکتی ہے۔‘

 انسٹاگرام بلاگرز اپنے فالووز کو فری گفٹ اور ڈیلیز جیتنے کا موقع بھی دیتے ہیں۔ (ان سپلش)

ایک سوال کے جواب میں فہد کا کہنا تھا کہ ’انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کی وجہ سے بہت سے بلاگرز لوگوں کو مختلف سکلز بھی سکھاتے ہیں۔ کسی ایک خاص شعبے سے تعلق رکھنے والے بلاگرز لائیو سیشن کے دوران صارفین کے سوالات کے جواب بھی دیتے ہیں۔ 
میک اپ ، فیشن انفلوئنسرزاکثرلوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے  چھوٹے چھوٹے مقابلوں کے ذریعے ڈیلیز کی صورت میں گفٹس بھی دیتے ہیں‘
سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ہر اچھی چیز واقعی اچھی نہیں ہوتی، بالخصوص یہاں دکھائی دینے والے خوبصورت چہرے فوٹو شاپ اور فلٹرز کا کمال ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے۔

شیئر: