Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'انسٹاگرام اکاؤنٹ سیاہ فام خواتین کے لیے'

آسیہ الفراج کی مہم میں دیگر سوشل میڈیا سلیبریٹیز نے بھی حصہ لیا (فوٹو: انسٹاگرام)
امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی منی ایپلس پولیس کے سفید فام افسر کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
نسل پرستی کے خلاف یہ لہر خلیجی ممالک میں بھی پہنچ گئی ہے اور کئی اہم شخصیات اور سلیبریٹیز اپنی مقامی سیاہ فام کمیونٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہیں۔
کویتی نژاد امریکی انفلوئنسر آسیہ الفراج نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے ذریعے سیاہ فام عرب مردوں اور خواتین کو سپورٹ کریں گی جس سے ان کے 27 لاکھ فالوورز کو بھی اس مہم کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
انہوں نے سیاہ فام عرب کمیونٹی کے ایسے افراد کے لیے اپنا انسٹاگرام پلیٹ فارم کی خدمات پیش کی ہیں جن کی آواز اور تجربات کی اکثر زیادہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔
 آسیہ الفراج نے اپنے اس منفرد خیال کا اظہار 11 جون کو کیا تھا اور اِس وقت تک بحرینی انفلوئنسر مریم اور سعودی عرب میں پیدا ہونے والی اور سوڈان میں پلی بڑھی ڈیزائنر آمنہ حمدتو نے آسیہ کی انسٹاگرام سٹوریز کو شیئر کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ نیٹ فلکس کی کویتی اداکارہ کولیٹ دلال بھی اس مہم میں شامل ہونے والی ہیں۔ آسیہ الفراج نے اپنے انسٹاگرام پر لکھا کہ 11 جون سے 18 جون تک میرے اکاؤنٹ سیاہ فام عربوں کا مواد تخلیق کرنے والوں نے استعمال کیا۔ اس دوران انسٹاگرام اکاؤنٹ پر مشرق وسطیٰ میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے حوالے سے بحث کی گئی۔

آسیہ کے مطابق یہ 'بلیک لائیوز میٹر' مہم سے اظہار یکجہتی کا وقت ہے (فوٹو: انسٹاگرام)

انہوں نے کہا کہ آپ ان کا کام اور ان کے منصوبے یہاں ان سٹوریز میں دیکھیں گے، اور ہر ایک کے کام کو اجاگر کیا جائے گا۔
آسیہ الفراج نے جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے چند روز بعد 'بلیک لائیوز میٹر' نامی مہم کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو پیش کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ 'یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم خاموش اتحادی نہ بنیں، ساتھی انسانوں کی مشکلات میں خاموش نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے 15 سالہ الزبتھ ایکفورڈ کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر بھی شیئر کی۔ الزبتھ ایکفورڈ سیاہ فام طلبہ کے اس گروپ میں شامل تھیں جس نے 1957 میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے سکول میں داخلہ لیا تھا۔

امریکہ سمیت دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

آسیہ الفراج نے لکھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان غلطیوں کو سدھاریں جو اس سے پہلے کرتے رہے ہیں۔ بیداری کی اس لہر کو سیاہ فام افراد کی زندگی میں تبدیلی کے لیے سنگِ میل ثابت ہونا چاہیے۔

شیئر: