Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رواں سال بارشیں کراچی کو ڈبو دیں گی؟

محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال کراچی میں مون سون بارشیں معمول سے 20 فیصد زیادہ ہوں گی جس کے نتیجے میں شہرکے متعدد علاقوں میں سیلاب کاخدشہ ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشگی تیاریوں کی ضرورت ہے۔
اربن فلڈنگ گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور ذرا سی بارش شہر کی سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں سیلاب لے آتی ہے۔
گذشتہ سال بھی بارشوں کے بعد شہر میں جمع ہونے والے پانی کی وجہ سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

 

محکمہ موسمیات سندھ کے سربراہ سردار سرفراز کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام متعقلہ اداروں کو پیشگی طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ رواں سال اربن فلڈنگ کا شدید خطرہ ہے اور اس سے بچنے کے لیے ابھی سے انتظامات کر لینا چاہییں۔
تاہم مقامی انتظامیہ کی جانب سے تاحال بارشوں کے اثرات اور سیلاب سے بچاؤ کے کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر کراچی کے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ضلع شرقی کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ شہر میں لانگ طویل مدتی بنیادوں پر اربن فلڈنگ اور نالوں کی صفائی سے متعلق کوئی جامع اور مربوط حکمت عملی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بارش کے پانی سے نمٹنے کے لیے رواں سال بھی کسی کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مون سون سیزن میں شہر کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے نالوں کی صفائی کا کام ہنگامی طور پر شروع کرنا ہوگا جس کے لیے فی الحال فنڈز موجود نہیں ہیں۔'

ماہرین کے مطابق تعمیرات میں بے ضابطگیاں اربن فلڈنگ کی ایک وجہ ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

'ضلع شرقی، جس میں سے دو اہم برساتی نالے گزرتے ہیں، اس کی صفائی کے لیے 4 کروڑ روپے درکار ہوں گے کیوں کہ اس کام کے لیے مشینری کرائے پر لینا پڑے گی، حکومت کے پاس اس پیمانے کے کام کے لیے مناسب تعداد میں مشینری موجود نہیں ہے۔'
سال 2007 میں اُس وقت کی کراچی کی شہری حکومت نے شہر کی بہتری اور ترقی کے لیے ایک سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 مرتب کیا تھا جس میں کچرا ٹھکانے لگانے، برساتی پانی کی گزرگاہیں بنانے اور غیر قانونی تعمیرات روکنے کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئی تھیں، لیکن اس پلان کی مدت پوری ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوسکا۔
اس وقت شہر کے تمام ندی نالے تقریباً بند ہیں اور ماہرین کے مطابق بارش ہونے کی صورت میں شہر میں برساتی پانی جمع ہو سکتا ہے۔

شہر میں کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیز برساتی پانی کے راستے میں بنا دی گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی تھی کہ شہر کا کوئی جامع نقشہ موجود نہیں اور کہا گیا کہ حکومتی اداروں کی مدد سے معلومات اکٹھی کر کے ایسا نقشہ تیار کیا جائے جو شہر کے نشیبی علاقوں سے نکاسی آب کی نشاندہی کرے اور ٹوپوگرافک سروے کر کے درجہ بندی سے واضح کرے کہ کس جگہ اربن فلڈنگ کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ 2006 کی مون سون بارشوں میں اربن فلڈنگ شہری تعمیرات میں بے ضابطگیوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔
 یہ بھی بتایا گیا کہ زمین کی غیر قانونی منتقلی اور تعمیری بے ضابطگیوں کی وجہ سے برساتی پانی کے نکاس کے راستوں اور نشیبی مقامات پر رہائشی کالونیاں قائم کر لی گئیں اور نکاس کا متبادل نظام بھی مہیا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے قدرتی عمل متاثر ہوا اور شہر میں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی۔

حکام کے مطابق نالوں کی صفائی کے لیے کروڑوں روپے درکار ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان تمام مسائل کی نشاندہی کے باوجود نکاسی آب کا بندوبست کرنا تو ایک طرف بلکہ غیر قانونی تعمیرات کے واقعات میں مزید تیزی آئی ہے، جس کی وجہ سے ہر سال مون سون کی بارشوں میں اربن فلڈنگ کا خطرہ رہتا ہے۔
شہر میں موجود کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیز برساتی پانی کے راستے میں بنا دی گئی ہیں جو ہر سال زیر آب آجاتی ہیں، جب کہ کچھ مقامات پر تعمیرات کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور پانی قریبی آبادیوں میں چلا جاتا ہے۔
 گذشتہ سال بارشوں میں بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی جس کے نتیجے میں لاتعداد حادثات ہوئے جن میں متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
شہری پلاننگ کے ماہر عارف حسن نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ کراچی کی شہری انتظامیہ کے پاس نشیبی اور پانی کے بہاؤ کے علاقوں کی نشاندہی کے لیے کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کا کوئی جامع نقشہ موجود نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)

'فی الحال شہری انتظامیہ بس ان علاقوں اور مقامات پر توجہ دیتی ہے جہاں پچھلی بارشوں میں بھی پانی جمع ہو چکا ہو۔ نقشہ نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے پلاننگ ممکن نہیں، بس ماضی کی معلومات کو سامنے رکھ کے فیصلے کر لیے جاتے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ محمودآباد نالے کے دہانے پر ڈی ایچ اے کی جانب سے تعمیرات کی گئی ہیں، جب کہ ماڑی پور کی جانب سے سمندر میں گرنے والا سولجر بازار نالہ بھی کے پی ٹی آفیسرز کالونی اور مچھر کالونی کی غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے بہت چھوٹا ہوگیا ہے۔
'جب مون سون کے دنوں میں سمندر کی موجیں بھی اوپر ہوتی ہے ایسے میں ان نالوں سے پانی کی روانی رک جاتی ہے اور یہ برساتی پانی کی نکاسی نہیں کر پاتے۔'

غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے برساتی نالے چھوٹے ہو گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

آرکیٹیکٹ ڈاکٹر نعمان احمد کے مطابق گزرتے وقت کے ساتھ زمینی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں تبدیلی آتی ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس سے ہونے والے نقصان سے روک تھام کے لیے بہت ضروری ہے کہ پہلے سے معلومات موجود ہوں جو صرف نقشوں کی مدد سے ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 کے تحت ایک خود مختار ادارے کا قیام ہونا تھا جو شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے اقدامات کرے، تاہم ابھی تک ایسا نہ ہو سکا۔
اربن ٹاؤن پلانر محمد توحید کا کہنا ہے کہ اصولاً برساتی نالوں میں گھریلو اور صنعتی فضلہ نہیں ڈالنا چاہیے تاہم کراچی کے بلدیاتی اداروں نے شہر کے برساتی نالوں میں کچرا اور فضلہ ڈال دیا ہے جس سے یہ نالے بارش کے وقت بلاک ہوجاتے ہیں۔

کئی علاقوں میں 13 برس بعد بھی پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہو سکا (فوٹو: اے ایف پی)

’جو علاقے زیرآب آتے ہیں جیسے سعدی ٹاؤن یا سرجانی ٹاؤن، تو یہ ان علاقوں میں بارش یا نکاسی کا پانی نہیں ہوتا بلکہ شہر کے مضافاتی علاقوں سے برساتی پانی کا بہاؤ ہوتا ہے جو راستے میں تعمیرات کی وجہ سے آگے نہیں جا پاتا اور مذکورہ علاقے زیرآب آجاتے ہیں۔‘
سال 2007 کے سٹریٹجک پلان میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لیاری اور ملیر ندی کے اطراف غیر قانونی تعمیرات کے نتیجے میں ندی کے بہاؤ اور برساتی پانی کے اس میں شامل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور سائٹ کے علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
پلان کے مطابق گلشنِ اقبال، ٹیپو سلطان، پی سی ایچ ایس اور شارع فیصل کے علاقوں میں بھی وسیع پیمانے پر سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس سے بچاؤ 13 برسوں بعد بھی ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

 بارشوں سے لوگوں کو نقل و حرکت میں شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس سلسلے میں ریحان ہاشمی کا کہنا ہے کہ شہر کے برساتی نالے عملی طور پر سیوریج نالے بن چکے ہیں اور ذرا سی بارش کی صورت میں بھی نکاسی ممکن نہیں ہو پائے گی۔
اگر رواں سال بارشیں ہونے تک یہی صورت حال رہتی ہے تو شہر کا ڈوبنا یقینی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں