Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون سے سرکاری ادارے کورونا کے نشانے پر؟

کسی بھی سطح پر کورونا سے متاثرہ سرکاری ملازمین کا ڈیٹا جمع نہیں کیا جا رہا (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں تمام طبقات کو بلا تفریق متاثر کیا ہے وہیں پاکستان میں بھی شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جو اس کی لپیٹ میں نہ آیا ہو۔
ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، عوام، سیاست دان، ارکان پارلیمنٹ، صحافی، سرکاری ملازمین، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے اس وائرس کے نشانے پر ہیں۔​
مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف جو کہ اس بیماری کے خلاف فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کر رہے ہیں کی بڑی تعداد کورونا سے متاثر اور ہلاک ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے محکمے ایسے ہیں جن کے ملازمین کی غیرمعمولی تعداد کورونا وائرس کا شکار ہوئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ اداروں میں سرفہرست پولیس، پارلیمانی عملہ، سرکاری ملازمین اور ضلعی انتظامیہ کے افسران ہیں جبکہ سرکاری ٹیلی ویژن، نیشنل بینک، واپڈا ہاؤس اور کئی دیگر اداروں کے ملازمین بھی زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
پنجاب پولیس کےاعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار سات سو سے زائد اہلکار کورونا کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے چار سو اہلکار صحت یاب ہو کر اپنی ڈیوٹی دوبارہ سنبھال چکے ہیں جبکہ ایک درجن پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک ہزار تین سو اہلکار ابھی بھی اس بیماری کا شکار ہیں۔
آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے موجودہ حالات میں پنجاب پولیس کو غیرمعمولی فورس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'ہماری فورس نے ایک دن بھی حکومت سے وسائل کا تقاضا نہیں کیا بلکہ مخصوص حالات، بیماری اور سخت ترین موسم میں ملنے والی تمام اسائنمنٹس کو بطریق احسن انجام دیا ہے۔'

معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا بھی کورونا کا شکار ہوئے (فوٹو: ریڈیو پاکستان )  

سندھ پولیس کے ترجمان کے مطابق ایک ہزار آٹھ سو 85 سے زائد افسران اورجوان کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کورونا میں ڈیوٹی فرائض کی ادائیگی کے دوران 16 پولیس افسران اور جوان ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے 14 کا تعلق کراچی جبکہ دو کا حیدرآباد رینج سے ہے۔ زیرعلاج افسران اور جوانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو 23 ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ چار سو 46 افسران اورجوان صحت یاب ہو کر گھر جا چکے ہیں۔ کورونا کے خلاف ہراول دستے کے طور پر کام کرنے والے افسران اور جوان خدمت انسانیت کے لیے انتہائی پرعزم اور بلند حوصلہ ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیس  کے ترجمان نوید گل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے محکمے میں کورونا سے متاثر ہونے والے افسران اور جوانوں کی تعداد ایک سو چار ہے جن میں سے 92 صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ سات اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
 بلوچستان میں بھی کورونا کا شکار پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔ 
اسلام آباد پولیس کے ترجمان ضیا باجوہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ وفاقی پولیس کے کانسٹیبل سے لے کر ایس پی تک ایک سو 33 اہلکاروں میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔

سینیٹ کے عملے میں سے 35 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری ملازمین کے علاوہ متعدد سیاست دان بھی کورونا کا شکار ہوئے جن میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکراسد قیصر، سابق سپیکر ایاز صادق، سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور وفاقی وزرا شیخ رشید شہریار آفریدی اور معاون خصوصی صحت ظفر مرزا سمیت 100 کے قریب ارکان سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔
یہ افراد عموماً پارلیمنٹ ہاؤس اور اسمبلی سیکرٹریٹ میں موجود ہوتے تھے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے سیکرٹریٹ میں پارلیمانی عملے کی ایک بڑی تعداد بھی کورونا سے متاثر ہوئی ہے۔
سینیٹ کے ایک ترجمان کے مطابق کم و بیش تمام عملے کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 35 کے ٹیسٹ مثبت آئے جبکہ قومی اسمبلی کے ترجمان نے متاثرہ افراد کی تعداد 36 بتائی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے 25 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے عملے کے 21 ارکان میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی میں کورونا کا شکار ہونے والے ملازمین کی تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔

کورونا سے زیادہ متاثرہ اداروں میں پولیس بھی شامل ہے (فوٹو: روئٹرز)

نامکمل ڈیٹا

اردو نیوز نے متعدد اداروں اور صوبائی حکومتوں سے رابطہ کرکے کورونا کا شکار ہونے والے سرکاری ملازمین اور اداروں کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کی۔ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ کسی بھی سطح پر کورونا سے متاثرہ سرکاری ملازمین کا ڈیٹا جمع نہیں کیا جا رہا اور اگر کیا بھی جا رہا ہے تو وہ کسی کی دسترس میں نہیں ہے۔ 
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاک سیکرٹریٹ کے علاوہ متعدد وزارتوں اور اداروں کے دفاتر شہر کے مختلف علاقوں اور عمارات میں واقع ہیں۔ کئی بار ان دفاتر اور عمارات میں کورونا کی تشخیص اور عمارات میں سپرے کرنے کی خبریں سامنے آئیں۔
حکام کا موقف ہے کہ حکومت نے ابتدا میں ہی صرف لازمی سٹاف کی حاضری کی پالیسی اپنا لی تھی اس لیے اگر کوئی ملازم کورونا کا شکار ہوا ہے تو بھی اس نے دفتر کو آگاہ نہیں کیا۔ اس لیے کورونا کا شکار ہونے والے سرکاری ملازمین کا درست ڈیٹا جمع نہیں کیا جا سکتا۔
اردو نیوز نے کورونا سے متاثر ہونے والے جن اداروں کے بارے معلومات حاصل کی ہیں ان میں وفاقی سطح پر وزیر اعظم ہاؤس میں چار، وزارت قومی غذائی تحفظ میں 18، نادرا 15،  اسٹیبلشمنٹ ڈویژن 10، آڈیٹر جنرل آف پاکستان پانچ، سمندر پار پاکستانیز 10، وزارت ہاؤسنگ 15، وزارت قانون و انصاف 14، وزارت خارجہ آٹھ، پیٹرولیم چھ اور ایوی ایشن ڈویژن میں بھی چھ افراد میں وبا کی تشخیص ہوئی۔

بلوچستان حکومت نے کورونا کا شکارسرکاری ملازمین کا ریکارڈ رکھا ہے (فوٹو: روئٹرز)

وفاق کی سطح پر سیکرٹری قومی اسمبلی اور سیکرٹری صحت سمیت متعدد ایڈیشنل سیکرٹریز، جوائنٹ سیکرٹریز اور ملازمین میں کورونا کی تشخیص ہوئی تاہم سرکاری سطح پر متاثرہ ملازمین کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے سول سیکرٹریٹ میں ملازمین کی سکریننگ تو کی گئی تاہم کورونا کی علامات والے ملازمین کو گھروں کو بھجوا دیا گیا۔
صوبوں میں بلوچستان حکومت نے کورونا کا شکار ہونے والے سرکاری ملازمین کا ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔ حکام کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں کم و بیش تین ہزار سرکاری ملازمین کورونا کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے 23 ہلاک ہو چکے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کی روک تھا م سے لے کر لاک ڈاؤن اور ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہے۔ اس وجہ سے انتظامی افسران ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنرز ہمہ وقت فیلڈ میں نظر آتے ہیں۔
تمام صوبوں  بشمول گلگت بلتستان میں بھی کئی ایک انتظامی افسران کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔ بیشتر نے صحت یاب ہوکر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اس دوران بلوچستان میں اسسٹنٹ کمشنر منگچر وکیل احمد کاکڑ ہلاک بھی ہوگئے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں