آج سے پورے پچاس سال قبل انڈین سنیما ہال کے پردوں پر ایک آواز گونجی تھی ‘ارے او سانبھا، کتنے انعام رکھے ہیں سرکار ہم پر؟‘
جواب آتا ہے ’پورے پچاس ہجار‘ اور پھر اس کی وضاحت دی جاتی ہے: ’سنا، پورے پچاس ہجار(ہزار)، اور یہ انعام اس لیے ہیں کہ یہاں سے پچاس پچاس کوس دور گاؤں میں جب رات کو بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے بیٹا سو جا ورنہ گبر آ جائے گا۔‘
یہ 15 اگست 1975 میں آنے والی فلم ’شعلے کے ڈائیلاگ‘ ہیں جو آج تک گونج رہے ہیں۔ یہ فلم ایک ایسے وقت آئی تھی جب انڈیا میں ایمرجنسی نافذ تھی تاہم اس فلم نے تہلکہ مچا دیا اور کامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
مزید پڑھیں
آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا ہوگا اور جس نے نہیں بھی دیکھا ہے اس نے اس کا نام ضرور سنا ہو گا۔
آج ہم شعلے کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ رمیش سپی کی فلم شعلے کو آج انڈین سنیما میں کلٹ کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اس میں اداکار دھرمیندر، امیتابھ بچن، سنجیو کمار، امجد خان، ہیما مالنی اور جیا بھادری لیڈ رول میں ہیں لیکن اس کا چھوٹا سے چھوٹا کردار بھی یادگار ہے۔
چاہے امام صاحب کے رول میں اے کے ہنگل ہوں یا احمد میاں کے رول میں سچن، جیلر کے رول میں اسرانی ہو یا سورما بھوپالی کے رول میں جدگدیپ، یہاں تک کہ ڈاکو گبر سنگھ کے گینگ کے کردار بھی لوگوں کے جانے پہچانے ہیں اور ٹھاکر کے خدمت گار رام لال سے لے کر بسنتی کی موسی بھی کسی سے کم نہیں۔
امجد خان نے گبر سنگھ کا جو کردار ادا کیا وہ ہندی سنیما کی تاریخ کے مقبول ترین ولن کے کرداروں میں سے ایک ہے۔ لیکن ان کی کاسٹنگ کا فیصلہ آخری لمحات میں کیا گیا، کیونکہ امجد خان فلم کے لیے پہلی پسند نہیں تھے۔
اپنے زمانے کے خطرناک ڈاکو گبر سنگھ کے کردار کے لیے سب سے پہلے ڈینی ڈینگ زونگپا سے رجوع کیا گیا تھا کیونکہ وہ اُس وقت فلم انڈسٹر کے چوٹی کے ولن کے طور پر ابھرے تھے اور ان کی پاٹ دار آواز اس کے لیے بہت مناسب سمجھی گئی تھی۔

اتنا ہی نہیں، ڈینی کو فلم کے لیے سائن کر لیا گیا لیکن وہ اسی زمانے میں بننے والی اداکار اور فلم ساز فیروز خان کی فلم 'دھرماتما' کی شوٹنگ کے لیے انڈیا سے دور افغانستان میں تھے جبکہ شعلے کی شوٹنگ جنوبی ہند کے معروف شہر بنگلور کے مضافات میں شروع ہو چکی تھی۔ چونکہ ڈینی بروقت دستیاب نہیں تھے اس لیے رمیش سپی امجد کو آزمانے پر مجبور ہوئے۔
امجد خان کو ہی اس میں لینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فلم کے مشترکہ مصنف سلیم خان اور جاوید اختر نے ان کی سفارش کی تھی۔
اگرچہ امجد خان فلم انڈسٹری سے دور نہیں تھے لیکن اس رول کے لیے امجد خان کو محض دس ہزار روپے دیے گئے تھے (بعض جگہ 50 ہزار بھی بتایا گیا ہے) کیونکہ اس وقت تک انہوں نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا تھا اور یہ فلم ایک طرح سے ان کی پہلی فلم تھی اور پھر اس فلم سے ان کی قسمت کا ستارہ ایسا چمکا کہ وہ اس کے بعد فلم انڈسٹری پر چھا گئے۔
نیوز 18 کے مطابق اس فلم کے لیے سب سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپے دھرمیندر کو دیے گئے تھے جبکہ امیتابھ بچن کو ایک لاکھ اور ہیما مالنی کو 75 ہزار روپے دیے گئے جبکہ جیا بھادری کو محض 35 ہزار روپے ملے۔
جن کے قدموں کی چاپ سے پورے ہال میں سناٹا چھا جاتا تھا جب وہ پہلی بار کیمرے کا سامنا کر رہے تھے تو وہ خود گھبراہٹ کا شکار تھے۔
امجد خان کے لیے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی ہتھیلی پر تمباکو رگڑتے ہوئے اپنے ڈائیلاگ بولنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اس کو مربوط ڈھنگ سے ادا نہیں کر پا رہے تھے۔ چنانچہ ایک ایک سین کے کئی کئی ری ٹیک لیے گئے۔
فلم ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ فلم سے جڑے لوگ امجد خان کی جگہ پران اور پریم چوپڑہ جیسے آزمودہ اور کہنہ مشق ولن کو لینے کی سفارش کرنے لگے لیکن رمیش سپی کو یقین تھا کہ امجد سنبھال لیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ امجد خان نے نہ صرف گبر کے کردار کو سنبھالا بلکہ اسے لافانی بنا دیا۔

اس فلم نے بعد میں آنے والی بہت سے فلموں کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اس کے ایک ایک کردار پر فلمیں بنائی گئیں لیکن جب 15 اگست کے بعد ’شعلے‘ فلم اکتوبر کے مہینے میں پورے انڈیا میں ری ریلیز کی گئی تو کچھ ناقدین نے اسے ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘، ’ونس اپون اے ٹائم ان دی ویسٹ‘، ’دی میگنیفیسنٹ سیون‘، اور یہاں تک کہ ’میرا گاوں میرا دیش‘ سے متاثر قرار دیا اور اسے مسترد کر دیا۔
بہرحال ہدایت کار رمیش سپی اور سکرپٹ رائٹر سلیم خان اور جاوید اختر نے اعتراف کیا کہ گبر سنگھ کے کردار کو انہوں نے ’دی میگنیفیشنٹ سیون‘ میں ایلی والاچ کے کردار سے لیا تھا۔
اس فلم کو بننے میں کافی وقت لگ گیا اور اس کا بجٹ بھی بڑھ گیا۔ اس کی وجہ رمیش سپی کی ضد تھی اور وہ من چاہا نتیجہ چاہ رہے تھے۔ چنانچہ جب فلم شروع ہوئی تو امیتابھ بچن اور جیا بھادری یعنی جے اور رادھا کے درمیان لیمپ بجھانے کے منظر کی شوٹنگ میں پورے 20 دن لگ گئے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ لائٹس کا معقول انتظام نہ تھا۔ اسی طرح فلم کے ایک گیت ’یہ دوستی ہم نہیں۔۔۔‘ کی شوٹنگ میں بھی تقریبا تین ہفتے لگ گئے۔
فلم جس ٹرین ڈکیتی سے شروع ہوتی ہے اس کی شوٹنگ بمبئی اور پونا کے درمیان ایک ٹریک پر کی گئی اور اس کو مکمل کرنے میں پورے سات ہفتے لگ گئے۔
اسی طرح احمد میاں کے قتل کے سین کو فلمانے کے لیے پورے 19 دن لگ گئے۔

جاوید اختر نے شعلے کے 50 سال پورے ہونے سے قبل ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سلیم خان کا خیال تھا کہ ایک فلم ایسی بنائیں جس میں ایک ریٹائرڈ میجر اور دو ایسے فوجی ہوں جن کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہو لیکن فوج کے ساتھ ہم لبرٹی نہیں لے سکتے تھے چنانچہ یہ کردار پولیس افسر اور دو بدمعاش کے روپ میں ڈھل گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو ہمارے ذہن میں ایک ڈاکو کے سوا کـچھ نہیں تھا۔ نہ تو کوئی رادھا تھی اور نہ ہی کوئی بسنتی۔‘
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے اسے ملٹی سٹارر فلم کے طور پر بھی نہیں سوچا تھا لیکن جیسے جیسے لکھتے گئے کردار آتے گئے اور یوں فلم ملٹی سٹارر بن گئی۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان سے دوبارہ شعلے لکھنے کے لیے کہا جائے تو اس میں وہ کیا تبدیلیاں کریں گے تو انہوں نے کہا کہ وہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ ان سے ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر آج 2025 میں جے اور بیرو زندہ ہوتے تو وہ کیا کر رہے ہوتے تو انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’وہ کارپوریٹ میں ہوتے اور کچھ نہ کچھ خرافات کر رہے ہوتے کیونکہ وہ ایسے ہی قسم کے بدمعاش تھے۔‘
اس فلم نے نہ صرف جاوید اختر اور سیلم خان کی زندگی بدل کر رکھ دی بلکہ امیتابھ بچن، امجد خان، ہیمامالنی سب کے لیے یہ فلم نیک شگون ثابت ہوئی۔ اب 50 سال بعد اسے اس کے اوریجنل اختتامیہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے تو دیکھیں لوگوں میں یہ کیا تاثر پیدا کرتی ہے!
اس فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ اسے افغانستان، ایران، روس اور چین میں بہت پسند کیا گیا۔