Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیمرے میں پکڑی گئی تو سوچا شیئر کر لوں‘

پاکستان میں خوبصورت و خوش ذائقہ آموں کی درجنوں اقسام پیدا ہوتی ہیں (فوٹو پاکستانی سفارتخانہ)
ذائقے اور صورت دونوں میں بہترین پھلوں میں شامل سمجھے جانے والے آم کے شائقین کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے کیسے کھائیں کہ منہ، ہاتھ اور لباس کو گندا ہونے سے بچایا جا سکے۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، لیکن پھر خود آم پسند کرنے والے ہی انہیں یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ پھلوں کے بادشاہ سے ملاقات میں جب تک ہاتھ اور منہ اس کے جوس سے نہ بھیگیں تو اس تعلق کا حقیقی لطف نہیں اٹھایا جا سکتا۔
پاکستان میں یورپی یونین کی جانب سے تعینات کی جانے والی پہلی خاتون سفیر اندرولا کامینارا بھی آم کھانے سے متعلق احتیاط کرتے کرتے کیمرے کی گرفت میں آ ہی گئیں۔ اس موقع پر انہوں نے سابقہ حکمت عملی کے برعکس راستہ اختیار کیا اور اپنی آم کھاتے ہوئے لی گئی تصویر پبلک کرنے کا فیصلہ کر کے اس پر عمل بھی کر ڈالا۔
مائکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا ’اب تک آموں کی تصاویر پوسٹ کرنے سے بچتی رہی لیکن اب نظرانداز نہ کیے جا سکنے والے پاکستانی آم کھاتے ہوئے کیمرے پر پکڑی گئی تو سوچا شیئر کر ہی لوں‘۔
 

یورپی یونین کی سفیر نے ناصرف آم کھاتے ہوئے اپنی تصویر شیئر کی بلکہ ’کاٹ آن کیمرہ‘ کا ہیش ٹیگ سجا کر دلچسپ صورتحال کی نشاندہی بھی کی۔
ان کے اعترافی ٹویٹ پر تبصرہ کرنے والے صارفین میں سے کچھ نے اسے خوبصورت کہا، کچھ اسے آم کھانے کا قومی طریقہ کہتے رہے تو کچھ دیگر پاکستانی آم کے متعلق حقائق کے ساتھ گفتگو کا حصہ بنے۔
عدنان حمید نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’پاکستان سالانہ تقریبا 17 لاکھ ٹن آم کے ساتھ دنیا میں آم کی برآمدات کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں سندھڑی، چونسا، لنگڑا، انور راٹول اور ثمر بہشت سمیت آم کی 250 سے زائد اقسام پیدا ہوتی ہیں‘۔
 

جنید آفریدی طبقاتی نوعیت کے طنزیہ تبصرے کے ساتھ سامنے آئے تو لکھا ’ممی ڈیڈی لوگ اسے کھانے کا درست طریقہ نہیں جانتے، یہی ہے اصل طریقہ‘۔

نائلہ وقار نے آموں سے متعلق پسندیدگی کے مقامی جذبات کا ذکر کیا تو اطمینان ظاہر کیا کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ غیر ملکی بھی یہی جوش و جذبہ رکھتے ہیں۔

طلحہ احمد ’ایٹ مینگو لائک دیسی‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ گفتگو کا حصہ بنے تو لکھا ’جب تک اس طریقے سے نہ کھائیں آپ آم کا لطف نہیں اٹھا سکتے‘۔
 

عدیل شاہ نے آم کھانے کے میرٹ اور کھانے پینے کی عمومی اخلاقیات میں تضاد کی نشاندہی کی تو تسلیم کیا کہ ’ٹیبل مینرز کو نظر انداز کیے بغیر آموں سے لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا‘۔
 

اندرولا کامینارا کی ٹویٹ نے صرف آم کھانے کے طریقے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لوازمات ہی نہیں بلکہ یادیں تازہ کرنے کا سامان بھی کیا۔ اپنی پروفائل کے مطابق روم کی ایک یونیورسٹی میں فلاسفی کے پروفیسر شاہد مبین نے کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا تو انہیں خوبصورت یادوں سے تعبیر کیا۔
 

ڈاکٹر علی نامی صارف نے خاتون سفیر کو خبردار کیا تو لکھا ’ہاتھوں سے پھسل رہا ہے، آپ نے اسے بہت مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے‘۔

ثمینہ علی نے آم کھانے کے طریقوں سے متعلق بحث ختم کرنے کی کوشش کی تو فیصلہ کن انداز میں لکھا ’آم کھانے کا کوئی باوقار طریقہ نہیں ہے‘۔

آم کھاتے ہوئے لی گئی ایک تصویر نے پھلوں کے بادشاہ کی صورت اور ذائقے، آم کھانے کے طریقے اور پاکستانی آموں کی انفرادیت سے متعلق گفتگو کو یہیں تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ کچھ ایسے ٹوئٹر صارف بھی اس کا حصہ بنے جو اپنی پسندیدہ قسم کے آم کو بہتر قرار دے کر دیگر اقسام کو تسلیم کرنے سے ہی منکر رہے۔
اگر چہ کچھ دوسرے یوزرز نے سفید چونسے کے ساتھ لنگڑے، سندھڑی، انور راٹول وغیرہ کا دفاع بھی کیا تاہم اس نکتے پر بحث کسی منطقی انجام کو پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: