Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ارینجڈ میرج نہ ہوئی تو آدھے سے زیادہ کنوارے رہو گے‘

شادی جیسی بھی ہو رفیق حیات کے لیے قربانی کا جذبہ تعلق کو مستحکم رکھتا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)
شادی ہونی چاہیے پر تو بیشتر کا اتفاق ہوتا ہے البتہ یہ کس عمر میں ہو اور ارینج میرج ہو یا کچھ اور ہو جیسے پہلوؤں پر گاہے بگاہے گفتگو جاری رہتی ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر اس بار شادی کیسے ہو کا ذکر چھڑا تو صارفین نے ناصرف اپنی پسند و ناپسند کو بیان کیا بلکہ ارینج میرج یا دیگر سے متعلق معاشرتی تصورات کو بھی موضوع بنائے رکھا۔
شادی گھر والوں کی مرضی سے ہو یا نہ ہو پر گفتگو کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ہانیہ نامی ایک ٹوئٹر صارف نے اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے ممکنہ نتائج کو بھی اپنی ٹویٹ کا حصہ بنایا۔
انہوں نے لکھا کہ ’اگر ہم ارینج میرج کا امکان خارج کر دیں تو آپ میں سے آدھے کبھی شادی نہیں کر سکو گے‘۔

شادی نہ ہو سکنے کی ایک وجہ سامنے آئی تو پھر دیگر ممکنہ وجوہات کا ذکر بھی کیا گیا۔ غنا ہارون نے رائے ظاہر کی تو لکھا ’اپنے ساتھی کا انتخاب کرنے کی اجازت اور اعتماد سے محرومی شاید بڑا مسئلہ ہے۔‘

سارہ زمان نے بات آگے بڑھائی تو لکھا ’یہ والدین ہیں جو اپنی خوشیوں کے لیے بچوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، یہ کیفیت بچوں کے لیے اپنی مرضی سے انتخاب کا عمل مشکل بنا دیتی ہے‘۔

وقاص خان معاملے کے ایک نئے پہلو کے ساتھ سامنے آئے تو لکھا ’یہ سچ ہے، اس لیے نہیں کہ بیشتر لڑکے بہتر نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ کسی لڑکی سے بات کیسے کی جائے یا اس تک قابل احترام طریقے سے کیسے رسائی حاصل کی جائے‘۔

ہانیہ کے خیال پر تبصرہ کرنے والوں میں کچھ صارف ایسے بھی تھے جو ارینج یا لومیرج دونوں میں سے کسی کو اہم سمجھنے کے بجائے ہر دو صورتوں میں ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کو تعلق کی بقا اور استحکام کے لیے ضروری قرار دیتے رہے۔ البتہ کچھ دیگر ارینج میرج کے فوائد متفق دکھائی نہیں دیے۔
خضر نامی ہینڈل نے لکھا ’متفق نہیں ہوں۔ پاکستان میں نصف مسائل حل ہو جائیں اگر لوگ خصوصا لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کریں، شادی کے لیے اپنی مرضی سے کسی کا انتخاب کرنا اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے شادیوں کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ اس سے دیگر خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں‘۔

اس پر ہانیہ نے سوال کیا کہ جو عجیب و غریب سی شخصیت رکھتے ہیں پھر ان سے شادی کون کرے گا؟ تو انہیں جواب ملا کہ کولونائزرز کے ساتھ رہ کر آپ کو دیسی عجیب و غریب ہی لگنے ہیں، البتہ ہانیہ کے جواب الجواب سے واضح تھا کہ وہ اس جواز سے متفق نہیں ہیں۔
اسد منظور نامی صارف نے ارینج میرج کو انتخاب کے بجائے مجبوری قرار دیا۔ اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا ’جب لو میرج کا ٹائم ہوتا ہے تب کیریئر بنا رہے ہوتے ہیں تو یہی ہونا ہے ہمارے ساتھ‘۔

فیضان الہی ارینج میرج کی انتہائی سخت مخالفت کے ساتھ سامنے آئے تو لکھا ’میں ارینج میرج کی نسبت زندگی بھر غیرشادی شدہ رہنے کو ترجیح دوں گا‘۔

شاہزیب شیخ نے اپنے تاثرات شیئر کیے تو لکھا ’بہت سی ثقافتوں میں ارینجڈ میرجز کا اب کوئی وجود باقی نہیں بچا، ایسے میں 50 فیصد کہنا درست ہے‘۔

ہانیہ کی ٹویٹ سے شروع ہونے والی بحث میں ارینجڈ میرج اور لو میرج کے حامی اپنے اپنے انتخاب کے حق اور دوسروں کی مخالفت میں دلائل کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات اور اعدادوشمار کا ذکر کر کے اپنا موقف درست ثابت کرتے رہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: