Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کا وادی کشمیر میں اسرائیلی طرز کی ’آباد کاری‘ کا منصوبہ

نئے آئینی آرڈر کے تحت ریاست جموں کشمیر کو دو یونین ٹیریٹوریز میں تقسیم کر دیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی
وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی حکومت ہے جس نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 1947 کے بعد سے پہلی مرتبہ شہریت کے قوانین میں ترامیم کی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق انڈیا وادی کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے کو اسی انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جیسے اسرائیل نے فلسطین میں یہودی بستیاں آباد کر کے کیا ہے۔
اے ایف پی نے وادی کشمیر میں متعارف کرائے جانے والے نئے قوانین اور اس کے ایک کروڑ چالیس لاکھ شہریوں پر ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
5 اگست 2019 کو نریندر مودی نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی جن کے تحت انہیں جزوی خودمختاری اور دیگر حقوق حاصل تھے۔
قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت میں انڈین حکومت نے یکطرفہ طور پر وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ اس دوران کئی کشمیری رہنماؤں اور شہریوں کو گرفتار کیا گیا اورانٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی سہولت مکمل منقطع کر دی گئی تاکہ باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہ ہو سکے۔وادی کشمیر میں اس وقت پانچ لاکھ سے زیادہ انڈین فوجی تعینات ہیں۔
نئے آئینی آرڈر، کانسٹیٹیوشن آرڈر 2019 کی منظوری کے بعد ریاست جموں کشمیر کو دو یونین ٹیریٹوریز لداخ، اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ 
نریندر مودی کی حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف کشمیر بلکہ انڈیا میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ بی جے پی کی حکومت ’ہندو‘ قوم کی تخلیق چاہتی ہے۔   

 وادی کشمیر میں 5 لاکھ سے زیادہ انڈین فوجی تعینات ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

نریندر مودی کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا تھا جس کے تحت وادی  کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیدادکا مالک نہیں بن سکتا تھا، سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا تھا۔ 1927 میں مرتب کیے گئے ان قوانین کے خاتمے کے بعد انڈیا کا کوئی بھی شہری ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ لے کر یہ تمام حقوق حاصل کر سکتا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت وادی کشمیر کے مقامی رہائشیوں کو بھی شہریت کے تحت ملنے والے تمام حقوق حاصل کرنے کے لیے ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لینا ہوگا۔ ڈومیسائل کے لیے انہیں 1927 میں جاری کیا گیا مستقل رہائش کا سرٹیفیکٹ دکھانا ضروری ہے۔
انڈین حکومت کی اس پالیسی کے نفاذ کے بعد سے 4 لاکھ تیس ہزار ڈومیسائل جاری ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے ڈومیسائل مقامی افراد کو جاری کیے گئے ہیں۔
کشمیریوں کو خوف ہے کہ غیر مسلموں کے کشمیر میں آباد ہونے سے ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔

شیئر: