Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر:خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال

گذشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے عمل کو بدھ کو ایک سال پورا ہو رہا ہے لیکن وادی میں منگل کے روز سے ہی کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
حکام نے کرفیو نا‌فذ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خفیہ معلومات موصول ہوئی ہیں کہ کشمیر کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی پہلی سالگرہ پر علیحدگی پسندوں اور پاکستان کے مختلف گروہوں کا یوم سیاہ بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کو بھی سبب کے طور پر بیان کیا گيا ہے۔
خیال رہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال پانچ اگست کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا اور خطے کو مرکز کے زیرِ انتظام دو حصوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دیا تھا۔
اس سے قبل ہی کشمیر کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور وہاں سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی سمیت بہت سے رہنما اب بھی نظر بند ہیں۔
کشمیر کی مختلف سیاسی پارٹیوں سمیت انڈیا میں حزب اختلاف کی کئی جما‏عتوں نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف بین الاقوامی فورم پر پاکستان، چین اور ترکی نے بھی آواز اٹھائی تھی۔
وادی میں کرفیو نافذ کیے جانے سے متعلق سری نگر کی ضلع انتظامیہ نے جو حکم نامہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ انھیں ’پانچ اگست کو علیحدگی پسندوں اور پاکستان کی حمایت یافتہ تنظیموں کی جانب سے یوم سیاہ منانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘

آرٹیکل 370 کے خاتمے کی پہلی سالگرہ سے ایک دن پہلے ہی کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایسے میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے خدشات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ اگست کو پرتشدد مظاہروں کی بھی اطلاعات ہیں جس میں جانی مالی نقصانات کے خدشات ہیں۔‘
اس میں لوگوں کے بڑی تعداد میں یکجا ہونے سے کورونا انفیکشن کے پھیلنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
دی پرنٹ نے اس موقعے پر ایک خبر شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کی سالگرہ پر ’دہشت گردوں‘ کے انکاؤنٹر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 30 جولائی تک 148 دہشت گردوں کو انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا گیا ہے جن میں سے 116 افراد اپریل کے بعد سے ہلاک ہوئے ہیں۔
انڈیا کے مختلف اہم اخبارات میں اس موقعے پر خصوصی مضامین شائع کیے گئے ہیں جن میں ایک سال کے دوران کشمیر کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان میں سے بیشتر میں یہ کہا گیا ہے کہ کشمیر اس دوران کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔ اسے جس قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات کی گئی تھی وہ کسی فسانے سے کم نہیں تھا۔

کشمیر خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف انڈیا میں بھی مظاہرے ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

دی وائر کے فاؤنڈنگ ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے ایک مضمون ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’رات کے چور کی طرح آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے کرفیو کی چادر چاہیے تھی۔ اب ایک سال گزر چکا ہے اور اس چوری کی سالگرہ کو چھپانے کے لیے بھی کرفیو کی چادر چاہیے۔ وہ اسے الحاق کہتے ہیں وہ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔‘

شیئر: