Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میں خود کو بیوی سمجھوں یا بیوہ؟

کوئٹہ پریس کلب کے باہر کھڑی زرینہ بلوچ نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے، جس پر یہ عبارت تحریر ہے کہ ’مجھے یہ بتایا جائے کہ میں، خود کو شبیر بلوچ کی بیوی سمجھوں یا بیوہ۔‘
زرینہ بلوچ یہ سوال اس لیے پوچھ رہی ہیں کہ ان کے خاوند، شبیر بلوچ چار برس قبل اس وقت سے غائب ہیں جب ان کی شادی کو دو سال ہوئے تھے۔ انھیں یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ ان کے خاوند کسی عقوبت خانے میں گل سڑ رہے ہیں یا انہیں مار کر کسی سرد خانے یا کسی قبرستان کی زینت بنا دیا گیا ہے. 
بس ایک مبہم سی امید کے ساتھ کرب کی کیفیت ہے جس سے زرینہ کو روز گزرنا پڑتا ہے. انہیں یہ بھی نہیں سمجھ آ رہی کہ وہ امید کا دامن تھامے اپنے خاوند کے ہی گھر رہیں یا خود کو بیوہ سمجھ کر اپنے والدین کے گھر چلی جائیں۔
زرینہ کے ساتھ اسی جگہ راشد بلوچ کے ننھے بچے بھی اپنے بابا کی تصویر ہاتھ میں تھامے کھڑے ہیں. ان معصوم روحوں کو شاید یہ اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ ان کے بابا کہاں چلے گئے ہیں. شاید ان کی ماں نے ان کو ان کے بابا کے بارے میں کوئی جھوٹی کہانی سنائی ہو اور شاید یہ بھی کہا ہو کہ اگر وہ ان کے ساتھ اس طرح اپنے بابا کی تصویر لے کر کھڑے ہوں تو وہ واپس آجائیں گے. 

پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا گیا تھا: فائل فوٹو اے ایف پی

انہی کے ساتھ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی نوجوان اور بد نصیب بیٹی کھڑی ہو کر اپنے اس گمشدہ باپ کی بازیابی کے لیے دہائی دے رہی ہے جسے لاپتہ ہوئے گیارہ سال بیت چکے۔ مگر اس کا انتظار ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور وہ سڑکوں پر آکر اپنے والد اور دیگر لاپتہ ہوجانے والے افراد کے لیے انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے کہ کوئی انہیں یہ تو بتا دے کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں اور اگر وہ زندہ ہیں تو ان کے لواحقین کو ان کا جرم بتا دیا جائے اور عدالتوں میں ان پر مقدمے چلائے جائیں. اگر واقعی وہ کسی جرم میں ملوث پائے گئے تو وہ کبھی بھی ان کی حمایت نہیں کریں گے. بلکہ ان کو سزا دینے کی استدعا بھی کریں گے. 
جب ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی یہ سب باتیں کر رہی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ماما قدیر بھی موجود ہوتا ہے. وہی ماما قدیر جس کی آدھی سے زیادہ زندگی انہی لا پتہ افراد کی بازیابی کےلیے جدوجہد کرتے گزر گئی. اور اس نےاس مقصد کےلیے بلوچستان سے اسلام آباد تک پیدل مارچ بھی کیا تھا. 

ایک مبہم سی امید کے ساتھ کرب کی کیفیت ہے جس سے زرینہ کو روز گزرنا پڑتا ہے: فوٹو ٹوئٹر /اشرف بلوچ

زرینہ بلوچ، راشد بلوچ کے بچے، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور ان کے دیگر ایسے ساتھی جن کا کوئی نہ کوئی فرد لاپتہ  ہے. ریاست کے تمام اداروں اور ارباب اختیار سے بھی ناامید ہوچکے ہیں. اس لیے ان کے پاس ماسوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اس طرح کبھی کسی پریس کلب کے سامنے اور کبھی کسی شاہراہ پر کھڑے ہو کر لاپتہ ہو جانے والے اپنے پیاروں کے لیے آواز اٹھائیں. ہو سکتا کہ اس طرح شاید ریاست کے کسی اہم عہدیدار تک ان کی آواز پہنچ جائے اور شاید ان کے دکھوں کا کچھ مداوا ہو سکے. 
ایسا نہیں ہے کہ اربابِ اختیار تک ان بد نصیبوں کی آواز پہنچتی نہیں ہے اور وہ اس صورتحال سے واقف نہیں ہیں. لیکن انھوں نے ان بد نصیب لوگوں کےلیے کوئی ٹھوس قدم تو کیا اٹھانا یہ تو ان کے حق میں اپنی آواز بھی نہیں اٹھا سکتے، بالکل ویسے ہی جیسے میڈیا کو ان کےلیے آواز اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس افسوسناک صورتحال کا مداوا صرف ایک ہی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں سول بالادستی قائم ہوجائے. تب ہی لا پتہ افراد جیسے حساس معاملات کی مکمل چھان بین ہوسکے گی. اور تب ہی ان کے لواحقین کی طرف سے کیے گئے مطالبات تسلیم کیے جاسکیں گے.

پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے متعدد بار احتجاجی مظاہرے بھی ہو چکے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی

جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک شاید ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی ایسے ہی لا پتہ کردیے جانے والے اپنے والد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی. راشد بلوچ کے بچے بھی ایسے ہی اپنے بابا کی تصویر اٹھائے سڑکوں پر احتجاج کرتے رہیں گے اور زرینہ بلوچ بھی اسی طرح اس ریاست سے سوال کرتی رہے گی کہ وہ خود کو شبیر بلوچ کی بیوی سمجھے یا بیوہ؟
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: