Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہر ، بیوی کا شرعی حق

 
 اس شخص کے لئے بڑی سخت وعید ہے ، جو نکاح کے موقع پر رسمی طورپر مہر مقرر تو کرے لیکن دل میں ادائیگی کا ارادہ نہ ہو
 
مولانا محمد عابد ندوی ۔جدہ
 
اسلام سے قبل عورت ہر معاشرہ میں مظلوم رہی ہے ، زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے ہاں بھی عورت کی حیثیت حقیر ساز و سامان سے زیادہ نہ تھی۔ لڑکی کی پیدائش اس درجہ ناگوار خاطر تھی کہ اکثر زندہ درگور کردی جاتی اور جو اس ظلم سے بچی رہے، وہ دوسرے طرح طرح کے ظلم سہنے پر مجبور تھی ۔ شوہر کے انتقال کے بعد اسے جائداد سے حصہ ملنا تو درکنار خود وہ مال و جائیداد کی طرح دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ، دین اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اس نے عورت کو عزت وشرافت عطا کی ۔ اس پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دور کیا۔ انسان ہونے کی حیثیت سے مرد ہی کی طرح اسے انسانی شرافت اور عزت کا مستحق قرار دیا ۔ اسی عزت و احترام اور تکریم کے پیش نظر ، اسلام نے اسے مرد کی طرح وارث قرار دیا کہ کسی کے انتقال کے بعد اب وہ مال متروکہ کی طرح تقسیم نہیں ہوگی بلکہ مردوں کی طرح اسے بھی وراثت ملے گی۔ اسی طرح عورتوں کا مقام ومرتبہ بلند کرنے اور ان کی شرافت و عزت نیز انسانی عصمت کا احترام ظاہر کرنے ہی کے لئے اسلام نے مردوں پر ضروری قرار دیا کہ وہ عورتوں سے مہر کے عوض نکاح کریں اور اس مہر کو خوش دلی سے ادا بھی کردیں ۔ عربوں میں مہر کا رواج تو تھا لیکن اس مہر پر عورت کا حق نہ تھا۔ لڑکی کے سرپرست شوہر سے وصول کرلیتے ، لڑکی کو اس میں سے کچھ نہ ملتا یا شوہر خود ہی مہر ادا نہ کرتا ، زبردستی  بیوی سے معاف کرالیتا ۔
 
اسلام میں مہر کی یہ حیثیت ہے کہ اس کے بغیر عورت کی عصمت ہی حلال نہیں ۔مہر کے بغیر شرعاً نکاح کا کوئی تصور نہیں ، قرآن پاک میں محرماتِ نکاح ( جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان ) کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا
 ان کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں اس طورپر کہ تم اپنا مال ( مہر ) دے کر ان سے نکاح کرنا چاہو ، برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے ، پھر جن سے تم فائدہ اُٹھالو ، انھیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو۔ ( النساء 24 )
اسی طرح ایک اور جگہ عورتوں سے نکاح اور ان کی عصمت کو حلال کرنے کے لئے مہر کو بطور شرط کے ذکرکیا گیا کہ ’’ جب تم انھیں ان کے مہر دے دو ‘‘۔ ( المائدہ5)
 
 چنانچہ مہر نکاح کا ایک لازمی حصہ ہے اور تقریباً اہل علم کا اتفاق ہے کہ نکاح کے موقع پر ایجاب و قبول کے وقت اگر بالفرض مہر کا تذکرہ نہ بھی کیا جائے تب بھی عورت مہر کی حقدار ہوگی اور ایسی صورت میں اسے ’’ مہر مثل ‘‘ ملے گا ( مہر مثل ، اس مہر کی مقدار کو کہتے ہیں جو عورت کے خاندان میں اس جیسی عورتوں کا عموماً رہا ہو ) نکاح میں مہر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ احادیث میں اس شخص کے لئے بڑی سخت وعید ہے ، جو نکاح کے موقع پر رسمی طورپر مہر مقرر تو کرے لیکن دل میں ادائیگی کا ارادہ نہ ہو ، رسول اﷲ کا ارشاد گرامی ہے
 جس شخص نے بھی کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں ادائیگی کا ارادہ نہیں تو وہ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کے پاس زانی کی حیثیت سے پیش ہوگا ۔ ( طبرانی ، مجمع الزوائد )
 
 غور کیجئے کہ مہر کی ادائیگی کا ارادہ نہ ہوتو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایسے نکاح کی اور ایسے شوہر کی کیا حیثیت ہے ؟ عورتوں پر مردوں کی حاکمیت و برتری کا ایک اہم سبب قرآن پاک کی رو سے ان کا عورتوں پر مال خرچ کرنا ہی ہے اور اس انفاق ( مال خرچ کرنے ) سے جہاں عورتوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مراد ہے ، وہیں ان کا مہر بھی اس میں شامل ہے ، جو شوہروں پر حق واجب ہے ، جسے خوش دلی سے ادا کرنے کی تاکید ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دو ، پھر اگر وہ خود اپنی مرضی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے کھاؤ پیو۔ ( النساء 4 )
 
 مہر کے بارے میں زیادہ بہتر بات تو یہی ہے کہ اسے نکاح کے وقت ہی نقد ادا کردیا جائے تاہم اُدھار مہر ( مہر مؤجل ) پر بھی نکاح درست ہے ، ایسی صورت میں بھی بعض اہل علم نے اس بات کو ضروری اور بعض نے مستحب قرار دیا کہ مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ صحبت و یکجائی سے قبل شوہر بیوی کو دیدے ، رسول اﷲ نے حضرت علیؓ  کو اس بات کا حکم فرمایا تھا کہ کچھ دینے سے پہلے بیوی کے پاس نہ جاؤ ۔ انھوں نے یہ عذر پیش کیا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ، رسول اﷲنے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس جو حطمی ذرہ تھی وہ کیا ہوئی ؟ وہی فاطمہ کو دے دو چنانچہ حضرت علی ؓنے یکجائی سے پہلے اپنی ذرہ حضرت فاطمہ ؓ  کو دیدی ۔ ( ابوداؤد ، نسائی )
 
نکاح میں مہر ضروری ہونے کے باوجود اس کی تعیین میں اعتدال مطلوب ہے ۔ اسلام نے زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی لیکن روایات و احادیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مہر کی زیادتی پسندیدہ نہیں ۔ مہر اتنا ہی مقرر کیا جانا چاہئے ، جتنا کہ شوہر آسانی سے ادا کرسکے اوراس کی مالی حیثیت جس کی متحمل ہو ۔ ایک حدیث میں سب سے بہتر نکاح اسے قرار دیا گیا ، جس کا مہر سب سے آسان ہو ، (طبرانی ) اسی طرح حضرت عائشہ ؓ  ایک روایت اس طرح نقل کرتی ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا
 بلا شبہ یہ بات عورت کی سعادت و نیک بختی میں شامل ہے کہ اس کا مہر ہلکا ، اس کا نکاح آسان ہو اور اس کے اخلاق اچھے ہوں جب کہ عورت کی بدبختی یہ ہے کہ اس کا مہر زیادہ ہو ، اس کا نکاح دشوار ہو اور اس کے اخلاق برے ہوں ۔
 
مہر کی زیادتی اگر مطلوب و پسندیدہ ہوتی تو خود رسول کریم کی ازواج مطہرات اور آپ کی صاحبزادیوں کا مہر زیادہ ہوتا حالانکہ بالعموم ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے 12اوقیہ چاندی ( 5سو درہم کم و بیش دیڑھ سو تولہ چاندی ) سے زیادہ نہ تھا۔ ازواج مطہرات میں صرف حضرت اُم حبیبہ ؓ  کا مہر 4ہزار درہم تھا ، جسے آپکی طرف سے شاہ حبش نجاشی نے ادا کیا تھا۔ حضرت فاطمہ ؓ کا مہر بھی5 سو درہم ہی تھا ۔حضرت عمرؓ کے زمانہ میں لوگ بہت زیادہ مہر مقرر کرنے لگے تھے تو آپؓ نے سخت تنبیہ فرمائی اور منبر پر چڑھ کر یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ ’’ لوگو ! مہر مقرر کرنے میں غلو نہ کرو ، اگریہ چیز دنیا میں باعث ِعزت و افتخار ہوتی یا آخرت میں اﷲ کے ہاں اس میں کوئی ثواب ہوتا تو نبی کریم اس کو سب سے پہلے اختیار فرماتے ، آپ نے اپنی ازواج میں سے کسی کا مہر نہ تو ساڑھے بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر کیا اور نہ اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا اس سے زیادہ مہر مقرر کیا ۔ ( صحیح مسلم ، ترمذی ، ابوداؤد )
 
افسوس کہ آج معاشرہ میں مہر کے معاملہ میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے ، صاحب حیثیت لوگ فخر و مباہات کے طورپر زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرتے ہیں جبکہ استطاعت ہوتو زیادہ مہر جائز تو ہے لیکن اظہار تفاخر کسی طرح درست نہیں ۔ اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے جہیز اور گھوڑے جوڑے کا مطالبہ ہوتا ہے تو ( اس کے جواب میں ) لڑکی والوں کی طرف سے مہر زیادہ مقرر کرنے پر اصرار اور اس سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مہر کی ادائیگی کا رجحان بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ مہر اس وقت دیا جاتا ہے ، جب اﷲ نہ کرے طلاق کی نوبت آجائے ۔ بہت سی عورتیں بھی مہر لینے یا اس کا مطالبہ کرنے کو معیوب سمجھتی ہیں بلکہ شوہر مہر دینا چاہے تو بعض یہ خیال کرتی ہیں کہ شوہر انھیں اپنے سے جدا کرنا ( طلاق دینا ) چاہ رہا ہے۔ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کا ارادہ مہر دینے کا ہوتا ہی نہیں وہ نکاح میں مہر کی تعیین کو ایک رسمی عمل سمجھتے ہیں ۔ اس لئے اپنی حیثیت سے زیادہ مہر پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں کہ مہر دینا کسے ہے ؟ حالاںکہ مہر نہ دینا یا ادائیگی کی نیت کا نہ ہونا بہت بڑا گناہ ہے ۔یہ قانوناً نکاح ہونے کے باوجود عند اﷲ زنا اور بدکاری کی طرح ہے ۔ بعض لوگ مہر کی ادائیگی کا ارادہ رکھتے بھی ہوں تو ادائیگی میں ٹال مٹول اور لاپروائی سے کام لیتے ہیں حالانکہ یہ دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہے ۔ بعض لوگ دباؤ ڈال کر معاف کرالیتے ہیں ، اگر وہ زور زبردستی نہ بھی کریں تو بسا اوقات عورتیں اس خیال سے بادل ناخواستہ معاف کردیتی ہیں کہ مہر ملنے والا تو نہیں ، اگر معاف نہ کروں تو تعلقات میں بدمزگی نہ پیدا ہوجائے ، جاننا چاہئے کہ ان سب صورتوں میں حقیقتاً مہر معاف نہیں ہوتا ، وہی معافی معتبر ہے جو عورت مکمل اپنی مرضی و خوشی سے معاف کرے ۔ بعض جگہ یہ رواج بھی پایا جاتا ہے کہ شوہر کا اگر انتقال ہوجائے تو اس کا جنازہ گھر سے نکالنے سے قبل گھر والے بیوی سے مہر کی معافی کا اقرار کرواتے ہیں ، جس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے شرعاً بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا کیونکہ وہ شوہر کے ذمہ قرض ہے اور قرض کی ادائیگی وراثت کی تقسیم پر مقدم ہوتی ہے ۔ الغرض مہر بیوی کا شرعی حق ہے ، اسے اعتدال کے ساتھ اور حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہئے ، غلو اور اظہار تفاخر کسی طرح درست نہیں ، پھر اسے نکاح کے موقع پر ہی یا جتنا جلد ہو خوش دلی سے ادا کردینا چاہئے ، ٹال مٹول اور عدم ادائیگی ، بیوی پر ایک طرح سے ظلم و زیادتی ہے جو کسی طرح جائز نہیں ۔
 

شیئر: