Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیدل لانگ مارچ بلوچستان میں احتجاج کا مؤثر ذریعہ کیوں؟

متعدد بار نوجوان سینکڑوں کلومیٹر لمبا سفر پیدل طے کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں
احتجاجی دھرنے، جلسے، مظاہرے اور لانگ مارچ پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں اور ہر دور میں مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کے ان ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے مگر بلوچستان کے نوجوانوں میں حالیہ مہینوں میں احتجاج کی ایک صنف مقبولیت حاصل کررہی ہے اور یہ صنف ’پیدل لانگ مارچ‘ ہے۔
گذشتہ دو برس کے دوران پانی، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے متعدد بار نوجوان سینکڑوں کلومیٹر لمبا سفر پیدل طے کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔
رواں ہفتے ایک بار پھر سابق وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کے علاقے جعفرآباد کی تحصیل اوستہ محمد سے 14 نوجوان کوئٹہ کے لیے پیدل لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے محمد صدیق عمرانی کی قیادت میں 29 اکتوبر کو پیدل مارچ کا آغاز کیا تھا اور پانچ دنوں میں وہ 150کلومیٹر کا سفر طے کرکے بختیار آباد پہنچ چکے ہیں۔
احتجاج کا یہ طریقہ آسان نہیں۔ مسلسل کئی دنوں تک پیدل چلنے کی وجہ سے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ کئی ساتھی بھی سفر کے درمیان حوصلہ ہار کر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں مگر تمام سختیوں اور مشکلات کے باوجود بلوچستان کے نوجوان مطالبات منوانے کے لیے پیدل مارچ ہی کیوں کرتے ہیں؟
 اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد صدیق عمرانی نے بتایا کہ ’ہم کئی برسوں سے اپنے علاقے میں بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں مگر وہاں ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہماری بات کوئٹہ اور اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں تک نہیں پہنچتی۔‘
صدیق عمرانی کے بقول ’ہم نے دیکھا کہ گذشتہ ہفتے پنجاب میں زیر تعلیم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 40 سے زائد طلبہ کی جانب سے سکالر شپ کی بحالی کے لیے ملتان سے لاہور تک پیدل لانگ مارچ کیا گیا تو انہیں قومی میڈیا میں کوریج ملی۔ مریم نواز شریف بھی ان سے ملیں اور پنجاب حکومت نے ان کا سکالر شپ بحال کرنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کئی ماہ تک ملتان میں احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے تھے مگر ان کی آواز تب تک نہیں سنی گئی جب تک انہوں نے ملتان سے لاہور تک پیدل لانگ مارچ نہیں کیا۔
رواں سال فروری میں خضدار سے تعلق رکھنے والے آٹھ نوجوانوں نے علاقے میں منشیات کے پھیلاؤ کے خلاف 300 کلومیٹر طویل لانگ مارچ کرکے کوئٹہ تک سفر کیا تو خضدار میں منشیات کے اڈوں پر چھاپے مارے گئے اور کئی سمگلرز گرفتار ہوئے۔

بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بسنے والوں نے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے بھی لانگ مارچ کا راستہ چنا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اسی طرح گزشتہ سال مارچ میں ضلع کچھی کے علاقے بھاگ ناڑی کے نوجوانوں نے بھی علاقے میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے کوئٹہ تک لانگ مارچ کیا تو پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر کام شروع ہو گیا۔ جبکہ سڑک پر حادثات کی روک تھام کے لیے بھی لور الائی اور مستونگ سے کوئٹہ تک دو مرتبہ پیدل مارچ کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔
کوئٹہ میں گذشتہ کئی برسوں سے سیاسی مظاہروں، جلسوں اور احتجاج کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی عبدالخالق رند کے مطابق ماضی میں بڑے سیاسی مقاصد کے لیے ایسے احتجاج ہوتے تھے مگر اب چھوٹے عوامی مسائل کے لیے بھی پیدل لانگ مارچ کا ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ہونے والے لانگ مارچ کے شرکاء مطالبات منوانے میں بھی کامیاب رہے اس لیے اب لوگ اسے احتجاج کا موثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ بلوچستان میں فاصلے طویل ہیں۔ دور دراز کے علاقوں سے جب پیدل مارچ کرکے لوگ کوئٹہ تک آتے ہیں تو انہیں کئی کئی دنوں تک جسمانی مشقت، موسم کی سختیاں اور دیگر تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں اس لیے انہیں عوامی ہمدردی اور میڈیا کی توجہ حاصل ہو جاتی ہے۔
'حکومتی ایوانوں تک بھی بات جلد پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جس علاقے کے لوگ پیدل مارچ کرتے ہیں وہاں کے عوامی نمائندوں پر بھی دباﺅ بڑھ جاتا ہے۔'

احتجاج کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ پیدل لانگ مارچ سے حکام کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اوستہ محمد سے شروع ہونے و الے لانگ مارچ میں خاتون پروین میر اور بائیں ٹانگ سے معذور بخش علی بھی شامل ہیں۔ بخش علی ایک ٹانگ اور لاٹھی کے سہارے بمشکل یہ پیدل سفر طے کررہے ہیں۔ ان کے ایک پاﺅں اور لاٹھی کی وجہ سے دونوں ہاتھوں میں بھی زخم پڑگئے ہیں۔
اردو نیوز سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بخش علی کا کہنا تھا کہ ’ہم احتجاج کا یہ سخت طریقہ اس لیے اپنا رہے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور بیدارہو اور وہ اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔‘
بخش علی کے مطابق ’ہمارے علاقے پر جمالی خاندان کی 70 سالوں سے حکومت میں ہے، اس خاندان سے وزیراعظم، تین مرتبہ وزرائے اعلیٰ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر صوبائی اسمبلی اور درجنوں بار صوبائی وزراء آئے مگر سات دہائیوں میں یہاں ایک گرلز کالج نہیں بن سکا۔ لڑکیاں میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ یہاں کوئی اچھا ہسپتال ہے اور نہ ہی تعلیمی ادارہ۔ پانی، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔

پیدل لانگ مارچ کرنے والے شکایت کرتے ہیں کہ عوامی نمائندے مسائل حل نہیں کر پاتے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

صدیق عمرانی کے مطابق ’اس وقت بھی ایک سینیٹر، ایک رکن قومی اسمبلی اور دو ارکان صوبائی اسمبلی کا تعلق اوستہ محمد سے ہے۔ ہمارے علاقے کے سیاستدان اعلیٰ عہدوں پر رہے مگر انہوں نے کبھی عوامی مسائل کے حل پر توجہ نہیں دی۔ سیاسی جماعتوں نے عوامی مسائل کو نظر انداز کیا اس لیے نوجوانوں اور سماجی کارکنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہی احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے 15 مطالبات ہیں جس میں اوستہ محمد کو ضلع کا درجہ، یونیورسٹی کیمپس اور گرلز کالج کا قیام، صحت کی سہولیات کی فراہمی جیسے مطالبات سب سے اہم ہیں۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ گذشتہ ادوار میں ملنے والے فنڈز کی بھی تحقیقات کرائی جائیں کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی اور زمین پر کیوں کچھ نظر نہیں آ رہا۔ ‘
صدیق عمرانی کا کہنا ہے کہ ہم پہلے بھی احتجاج کرتے آ رہے ہیں مگر کبھی ہماری بات نہیں سنی جاتی تھی اور اب پیدل مارچ شروع ہوتے ہی ہمیں بار بار فون آ رہے ہیں کہ آپ اپنا لانگ مارچ ختم کردیں مطالبات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

شیئر: