Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ناکافی سہولیات: لوگ تفتان کے قرنطینہ سے بھاگنے لگے

منگل کو تفتان کے راستے ایران سے آنے والے ایک 12 سالہ بچے میں کورونا وائرس کی تشخیص نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، تاہم قرنطینہ میں میں موجود زائرین مسلسل سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایت کر رہے ہیں۔
یہ بچہ تفتان کے قرنطینہ مرکز میں دو ہزار سے زائد ایسے زائرین کے ساتھ 10 روز تک موجود رہا جہاں ایک دوسرے سے ملنے جلنے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ وائرس کے پھیلاﺅ کے خدشات قوی ہونے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آگئی ہے اور قرنطینہ میں موجود زائرین کی آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
تاہم اس سے پہلے ہی درجنوں زائرین تفتان کے قرنطینہ مراکز میں سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کے دوران فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں جنہیں پکڑنے کے لیے نوشکی، مستونگ اور کوئٹہ میں چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ تفتان سے بھاگ کر آنے والے دو درجن سے زائد زائرین کو کوئٹہ میں پکڑ کر دوبارہ قرنطینہ مرکز منتقل کردیا گیا۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’تفتان سے چھپ کرکوئٹہ پہنچنے والے زائرین کو پکڑنے کے لیے کوئٹہ کے قریب لکپاس سمیت مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں۔ چیک پوسٹوں پرعام گاڑیوں اور مسافر بسوں کو روک کر چیکنگ کی جاتی ہے۔‘ 
 

فیصل طارق کے مطابق تین روز کے دوران 51 افراد کو کوئٹہ کے علاقے میاں غنڈی کے قریب پی سی ایس آئی آر سینٹر میں قائم قرنطینہ مرکز منتقل کردیا گیا۔ ان میں نصف سے زائد ایران سے آنے والے زائرین ہیں اور باقی وہ افراد ہیں جنہوں نے بس میں ان زائرین کے ہمراہ سفر کیا۔
’ہم نے ایک بس کی تمام سواریوں اور عملے کو اتار کر قرنطینہ مرکز منتقل کر دیا۔ اس بس میں چھ زائرین تفتان کے قرنطینہ مرکز سے چھپ کر کوئٹہ پہنچے تھے۔‘
محکمہ صحت بلوچستان کے کورونا سیل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 28 فروری سے 10 مارچ تک ایران سے تفتان کے راستے پانچ ہزار565 پاکستانی باشندے وطن واپس آچکے ہیں۔ ان میں 3 ہزار 766 زائرین کو تفتان میں پاکستان ہاﺅس، ٹاﺅن ہال، کرکٹ سٹیڈیم اور نجی چار دیواریوں سمیت چھ مختلف مقامات پر قرنطینہ میں رکھا گیا جبکہ باقی قریباً 1800 افراد کو سرحد پر سکریننگ کرنے کے بعد گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی۔ حکام کے مطابق ان میں تاجر، سیاح اور طلبہ سمیت ایسے افراد شامل تھے جنہوں نے ایران کے کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔ 
محکمہ صحت بلوچستان کے کورونا سیل کے فیلڈ آفیسر ڈاکٹر احمد بلوچ کے مطابق تفتان میں موجود زائرین میں سے اب تک صرف ایک 12 سالہ بچے میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ بچہ پہلے سے ہی تھیلیسیمیا کا شکار تھا اور اسے خون کی کمی کی وجہ سے طبیعت خراب ہونے پر کوئٹہ لایا گیا تھا جہاں اس کے ٹیسٹ کیے گئے تو کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

عبداللہ بلوچ نے بتایا کہ ’قرنطینہ میں رکھے گئے زائرین ایک دن قبل تک کھلے عام گھوم رہے تھے۔‘ فوٹو: اردو نیوز

تفتان کے پاکستان ہاﺅس میں موجود کوئٹہ کے رہائشی علی عباس نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہاں قرنطینہ میں خوراک سے لے کر صفائی تک کسی قسم کے انتظامات درست نہیں۔ خیمے انتہائی قریب قریب لگائے گئے ہیں۔ ایک بڑے ہال میں 200 سے زائد افراد ایک ساتھ رہ رہے ہیں، ان میں اگر ایک بھی شخص کورونا کا مریض ہوا تو سب کو متاثر کرے گا۔‘ 
علی عباس کے مطابق سہولیات نہ ہونے اور بیمار ہونے کے ڈر کی وجہ سے زائرین باہر نکل کر گھروں کو جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر سرحد بند ہونے کی وجہ سے کوئٹہ اور تفتان کے درمیان بسیں چلنا بند ہوگئی ہیں۔ ہماری اپنی گاڑیاں انتظامیہ نے پکڑ رکھی ہیں۔ ہمارے پاسپورٹ بھی اپنے پاس رکھے ہیں۔ جن کے پاسپورٹ نہیں لیے گئے تھے ان میں سے کچھ افراد باہر جانے میں کامیاب ہوگئے۔
تفتان کے ایک مقامی دکاندارعبداللہ بلوچ نے بتایا کہ ’قرنطینہ میں رکھے گئے زائرین ایک دن قبل تک کھلے عام گھوم رہے تھے مگر اب زائرین میں سے ایک بچے میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد انتظامیہ نے روک ٹوک شروع کردی ہے۔

طالب علم عباس نے بتایا کہ ’یہاں پر سکریننگ کا کام کرنے والے افراد غیر تجربہ کار ہیں.‘ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ ’تفتان کی بیشتر آبادی خوف کی وجہ سے نقل مکانی کر گئی ہے اور جو لوگ یہاں رہ گئے ہیں وہ گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ ایک مسئلہ اور پیدا ہو گیا ہے کہ اگر تفتان کا کوئی مقامی شخص بیمار ہوجائے تو اسے علاج کے لیے 300 کلومیٹر دور دالبندین جانا پڑ رہا ہے کیونکہ یہاں کے واحد ہسپتال کو ایران سے آنے والے افراد کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔‘
ٹاﺅن ہال تفتان کے قرنطینہ مرکز میں موجود تہران میں میڈیکل یونیورسٹی کے سال آخر کے طالب علم عباس نے بتایا کہ ’یہاں پر سکریننگ کا کام کرنے والے افراد غیر تجربہ کار ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ سکریننگ کیسے کی جاتی ہے۔ ان کے پاس موجود میڈیکل آلات بھی درست طریقے سے کام نہیں کرتے۔ اگر کوئی کورونا وائرس کا مریض ہوا بھی تو انہیں پتا نہیں چل سکتا۔‘
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر فہیم خان کا کہنا ہے کہ ’تفتان میں پانچ سے چھ ڈاکٹر موجود ہیں جبکہ پاک فوج کی ٹیمیں بھی سول اداروں کی مدد کر رہی ہیں۔ ’ہم نے تفتان کے لیے خصوصی موبائل لیبارٹری بجھوادی ہے جو جلد کام شروع کردے گی۔ اب مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کوئٹہ یا اسلام آباد بھیجنے کے بجائے وہیں تفتان میں ہی کیے جائیں گے۔‘ 

’ہم کورونا سے تو شاید بچ جائیں مگر گندگی کی وجہ سے بیمار ہوجائیں گے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

ٹاﺅن ہال تفتان میں قائم قرنطینہ مرکز میں موجود کوئٹہ کے رہائشی عامر علی ہزارہ نے بتایا کہ ’یہاں انتہائی گندگی اور بدبو ہے، واش رومز کا گندا پانی باہر نکل کر کھلے میدان میں بہتا ہے۔ ہم کورونا سے تو شاید بچ جائیں مگر گندگی کی وجہ سے بیمار ہوجائیں گے۔ یہاں پر میڈیکل چیک اپ کے لیے اب تک کوئی ڈاکٹر نہیں آیا۔‘
عامر علی نے بتایا کہ ’بعض زائرین نے احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے مگر اس کے باوجود انتظامیہ کچھ نہیں کر رہی۔ اس سے پہلے بھی 500 سے زائد زائرین نے باہر نکل کر 10 کلومیٹر سے زائد پیدل مارچ کیا، پھر ایف سی حکام کی یقین دہانی پر واپس قرنطینہ مرکز آگئے۔ اب بھی صورت حال تبدیل نہیں ہوئی۔‘
ڈی جی ہیلتھ سروسز ڈاکٹر فہیم خان کے مطابق ’ہم نے تفتان سے آنے والے زائرین کے لیے منصوبہ بنایا ہے، اگر حکومت نے اس کی منظوری دی تو اس منصوبے کے تحت زائرین کو سات دن تک مزید کوئٹہ کے قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں کوئٹہ کے علاقے میاں غنڈی میں پی سی ایس آئی آر سینٹر میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔‘ 

ڈاکٹر فہیم خان کے مطابق ایران اور افغانستان سے ملحقہ 10 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے. فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر فہیم خان کے مطابق ’ہماری تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ ایران اور افغانستان سے ملحقہ 10 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ تمام صوبے میں آئسولیشن رومز قائم کر دیے گئے ہیں۔ افغانستان کی سرحد کورونا وائرس کی منتقلی کے خدشے کی وجہ سے مزید ایک ہفتے کے لیے بند کی گئی ہے۔ اگر پاک افغان چمن سرحد دوبارہ کھولی جاتی ہے تو وہاں بھی ہماری تیاریاں مکمل ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’حکام نے کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال میں 10 اور شیخ زید ہسپتال میں 20 آئسولیشن رومز قائم کردیے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ اور چمن سمیت صوبے کے ایک ہزار سے زائد طبی عملے کو کورونا سے نمٹنے کی تربیت دی گئی ہے۔
کوئٹہ کے علاقے میاں غنڈی میں قائم  کیے گئے قرنطینہ مرکز میں تعینات کیا گیا طبی عملہ سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایات کر رہا ہے۔ سینٹر میں موجود ایک نرس کرن کندن نے بتایا کہ ’ہمیں بولان میڈیکل کالج کے سکول آف نرسنگ سے یہاں بھیجا گیا ہے مگر یہاں پر کوئی سہولیات موجود نہیں۔ ہمیں عام ماسک تک نہیں دیا گیا۔ طبی عملے کو این 95 ماسک، لباس سمیت پی پی آئی کٹس (ذاتی حفاظتی سامان) فراہم نہیں کیا جاتا تو یہ ہماری جانیں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔‘
نرسنگ سپرنٹنڈنٹ عبدالمتین نے بتایا کہ ’یہاں خیمہ بستی کے سوا کچھ موجود نہیں۔ پانی کا انتظام ہے اور نہ ہی صفائی کا۔ ماسک بھی نہیں دیے گئے، ہم اپنا رومال استعمال کرکے منہ چھپا رہے ہیں۔ ہم کام سے انکاری نہیں مگر سہولیات تو دی جائیں۔
 تاہم پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق کا دعویٰ ہے کہ ’ہم نے تمام سہولیات فراہم کی ہیں۔ میڈیکل سٹاف ڈیوٹی سے بچنے کے لیے جھوٹی شکایات کرتا ہے۔‘

سول سوسائٹی کی جانب سے کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ فوٹو: اردو نیوز

محکمہ صحت کے کورونا سیل کے فیلڈ آفیسر ڈاکٹر احمد بلوچ کے مطابق ’مجموعی طور پر دو ہفتوں کے دوران بیرون ملک سے بلوچستان میں 80 ہزار افراد داخل ہوئے ہیں جن کی سکریننگ کی گئی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ 67 ہزار افراد پاک افغان چمن سرحد بند ہونے سے پہلے افغانستان سے بلوچستان آئے۔‘
کوئٹہ کی مختلف سماجی تنظیموں نے ملک کے باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کی خاطر کوئٹہ منتقل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
کوئٹہ کی مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں نے ملک کے باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کی خاطر کوئٹہ منتقل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔سول سوسائٹی کی جانب سے کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سماجی کارکنان، وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے رہنماء بھی شریک ہوئے۔ 
مظاہرے کے منتظم سماجی کارکن ودود جمال نے اردونیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ ایران سے آنے والے سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کو کوئٹہ میں رکھنے کے بجائے ان کے اپنے صوبوں میں منتقل کیا جائے۔ کورونا کے مریضوں کے لیے اعلیٰ معیار کی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے جو بلوچستان حکومت فراہم نہیں کرسکتی۔ اگر اس معاملے سے صحیح طور پر نہ نمٹا گیا تو بیماری پھیل سکتی ہے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: