Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہزارہ ٹاؤن میں نوجوانوں پر تشدد کا واقعہ، وجہ کیا تھی؟

23 سالہ محمد بلال نورزئی ہلاک اور ان کے دو ساتھی شدید زخمی ہوئے تھے (فوٹو: ٹوئٹر)
کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں ہجوم کے ہاتھوں نوجوان کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) تشکیل دے دی ہے۔ پولیس کے مختلف شعبوں اور حساس اداروں پر مشتمل آٹھ رکنی ٹیم 15 دنوں میں اپنی رپورٹ تیار کرے گی۔ 
ایس پی صدر ڈویژن شوکت خان مہمند کا کہنا ہے کہ واقعہ میں ملوث مرکزی ملزم سمیت اب تک 13 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جنہیں عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔ 
محکمہ داخلہ بلوچستان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور سٹیٹ بینک کو کیس سے جڑے مالی پہلوؤں کی تحقیقات میں جے آئی ٹی کی معاونت کا کہا ہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم 15 دنوں میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انسداد دہشتگردی عدالت میں جمع کرائے گی۔
پولیس کے مطابق جمعے کی شب کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں تین سو سے چار سو افراد پر مشتمل ہجوم نے شہر کے دوسرے علاقے سے آنے والے تین نوجوانوں کو خواتین کی ویڈیو بنانے کے الزام میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
پتھراؤ، لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے وار سے 23 سالہ نوجوان محمد بلال نورزئی ہلاک اور ان کے دو ساتھی کریم اور نیاز محمد شدید زخمی ہوگئے تھے۔ تینوں افراد کوئٹہ کے علاقے پشتون باغ کے رہائشی تھے۔ پولیس نے زخمیوں کو دو گھنٹے کی کوششوں کے بعد ہجوم سے بچا کر ہسپتال منتقل کیا تھا۔ 

مقتول کے لواحقین نے لاش لے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب دھرنا دیا (فوٹو ٹوئٹر)

ہسپتال میں ہوش میں آنے کے بعد زخمی نیاز محمد بادیزئی نے ہفتے کو پولیس کو بیان ریکارڈ کرایا کہ لین دین کے تنازعے کو خواتین کو ہراساں کرنے کا رنگ دیا گیا ہے۔
’میں نے ہزارہ ٹاؤن میں ایک حجام کی دکان کے مالک جواد کو کچھ دن پہلے چار لاکھ 20 ہزار روپے میں ایک گاڑی فروخت کی تھی۔ جمعے کو دو دوستوں کے ہمراہ پیسے مانگنے دکان پر گئے تو جواد نے پیسے دینے کی بجائے اس بات پر بلیک میل کرنا شروع کر دیا کہ آپ نے لڑکی کی تصویر بنائی اور پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشدد کا نشانہ بنایا۔‘
ایس پی صدر کے مطابق مرکزی ملزم  جواد سمیت تیرہ افراد کو چھاپے مار کر گرفتار کر کے گاڑی بھی برآمد کرلی گئی ہے۔ ملزمان  کے خلاف تھانہ بروری میں انسداد دہشتگردی ایکٹ، قتل، اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 سیکنڈ کی ایک ویڈیو کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں تینوں نوجوان ایک حجام کی دکان میں بیٹھے نظر آرہے ہیں اور ایک شخص مقتول بلال کے موبائل سے ویڈیو پلے کرتا ہے جس میں کچھ خواتین کو سڑک سے گزرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی  ویڈیو میں ایک شخص بلال کے دوست کو تھپڑ مارتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ 

واقعے کی پر تشدد تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد علاقے میں کشیدگی کی فضا ہے (فوٹو ٹوئٹر)

ایس پی صدر شوکت خان کا کہنا ہے کہ پولیس نے واقعہ کی مختلف پہلوؤں پر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ زخمی کے بیان کے تناظر میں بھی گرفتار ملزمان سے تفتیش کی جارہی ہے۔ پولیس ابھی تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچی کہ واقعہ کی اصل وجہ کیا تھی۔  
دوسری جانب محکمہ داخلہ بلوچستان نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ پولیس اسد ناصر کی سربراہی میں آٹھ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی جس میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی اور متعلقہ تفتیشی آفیسر شامل ہوں گے۔
ہجوم کی جانب سے لاش اور زخمیوں کو برہنہ کرنے اور بے رحمانہ تشدد کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کوئٹہ میں کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ مقتول کے لواحقین اور پشتون باغ کے مکینوں نے واقعہ کے خلاف وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب میت کے ہمراہ احتجاج بھی کیا تھا۔ 
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس نے صورتحال کے پیش نظر شہر میں حساس علاقوں کی سیکورٹی بڑھا دی ہے۔ بعض عناصر سوشل میڈیا پر واقعے کو بنیاد بنا کر نسلی اور مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلا رہے ہیں جن کی نگرانی کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایف آئی اے کی مدد بھی لی جائے گی۔ 

شیئر: