Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان، عراق سے مزید امریکی فوجی واپس

امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع کرس ملر نے عراق اور افغانستان میں موجود فوجیوں میں کمی کا اعلان کیا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ عراق اور افعانستان اپنی فوجیوں کی تعداد کو 20 سال کی کم ترین سطح پر لے جا رہا ہے۔
یہ اعلان منگل کو پنٹاگان کی طرف سے صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بیرونی تنازعات کو ختم کرنے کا اظہار کیا تھا۔
قائمقام سیکرٹری دفاع کرس مِلر نے کہا ہے کہ 15 جنوری تک افغانستان سے تقریباً دو ہزار فوجی نکالے جائیں گے جبکہ پانچ سو سے زائد عراق سے واپس بلائے جائیں گے۔ اس کے بعد  دونوں ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500  رہ جائے گی۔

 

’ان دونوں اقدامات سے ٹرمپ کی اس پالیسی کا اظہار ہوتا ہے جو عراق اور افغانستان میں جنگوں کو کامیاب اور ذمہ دار انجام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ہمارے بہادر فوجیوں کو بھی گھر لانا ہے۔‘
ملر کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے وہ مقاصد حاصل کر لیے ہیں جن کا آغاز 2001 میں القاعدہ کے حملوں کے بعد کیا گیا تھا جو انتہاپسندوں کو شکست دینے اور اپنے اتحادیوں کی جنگ میں مدد کے لیے تھے۔
’آنے والے سال میں ہم اس طویل جنگ کو ختم کر دیں گے اور اپنے فوجیوں کو گھر لائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم اپنے بچوں کو ایک بھاری بوجھ اور مستقل جنگ سے بچائیں گے ہماری افواج کی طرف سے عراق اور افغانستان کے استحکام کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘
یہ اعلان صدر ٹرمپ کی طرف سے سیکرٹری دفاع مارک ایسپر کو برطرف کیے جانے کے 10 روز بعد سامنے آیا ہے، جنہوں اس بات پر زور دیا تھا کہ افغانستان میں 4500 فوجی رکھنے کی ضرورت ہے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کابل حکومت کی مدد بھی کرے۔
29 فروری کو طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہونے کے بعد اس سال 13 ہزار فوجیوں میں تقریباً دو تہائی پہلے ہی کم کیے جا چکے ہیں۔

فوجیوں میں کمی کا اعلان صدر ٹرمپ کی طرف سے سیکرٹری دفاع مارک ایسپر کو برطرف کیے جانے کے 10 روز بعد سامنے آیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ اس وقت امن مذاکرات کریں گے جب مئی 2021 تک امریکی افواج نکل جائیں گی۔
مگر ایسپر کی جگہ ملر کے آنے تک پنٹاگان کا کہنا تھا کہ طالبان حملے بند کرنے کے وعدے پر قائم نہیں ہیں اور مزید کمی ان پر مذاکرت کے لیے دباؤ میں کمی لائے گی۔
اس اعلان پر اتحادیوں اور سینیئر سیاست دانوں کی جانب سے تشویش کا اظہا کیا گیا ہے کہ افواج کی کمی کی وجہ سے افغانستان اور عراق انتہا پسند گروپوں کے نشانے پر آ جائیں گی۔
نیٹو چیف نے منگل کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا افغانسان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم بن سکتا ہے جہاں ہماری سرزمینوں پر حملوں کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ داعش افغانستان میں وہی خلافت قائم کر سکتی ہے جو اس نے شام اور عراق میں کھوئی تھی۔

شیئر: