Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوست کا دشمن ہمیشہ دشمن نہیں ہوتا

چین اور انڈیا کے تعلقات سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے حالیہ دنوں تلخ ہوئے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی
ایک زمانہ تھا کہ انڈیا کے وزیراعظم چین کے صدر کے ساتھ خوب جھولا جھولتے تھے،کبھی احمدآباد میں تو کبھی ووہان میں۔ اگر آپ کا جغرافیہ زیادہ اچھا نہ ہو تو ووہان چین کا وہی شہر ہے جہاں سے گذشتہ برس کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا۔ 
نریندر مودی وزیراعظم بنے، انہوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور شی جن پنگ نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا۔
چین کو لگا کہ انڈیا تو بڑا دوست نواز ملک ہے، سرحد کا اتنا بڑا اور پرانا تنازع لٹکا ہوا ہے لیکن وہ تجارت پر فوکس کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہی ملک ترقی کرتے ہیں جو سیاست اور تجارت کو الگ رکھنا جانتے ہیں۔
پھر چین کو لگا کہ آپس میں اتنی گہری دوستی ہو گئی ہے اور دوستی میں ہمارا تمہارا کیا دیکھنا، مشرقی لداخ میں تھوڑی سی فوج بھیج دیتے ہیں، وہاں اتنی زمین خالی پڑی ہے، کسی کی صحت پر کیا فرق پڑے گا۔
جب سرحد کا مسئلہ طے ہوگا تو دیکھا جائے گا، جب سمجھوتے ہوتے ہیں تو تھوڑا بہت تو ایڈجسٹ کرنا ہی پڑتا ہے.
اور وہاں سے بات بگڑنا شروع ہو گئی۔ جواب میں انڈیا نے چین کے سامان کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اگرچہ یہ بات تو بحث طلب ہے کہ بائیکاٹ کتنا کامیاب رہا ہے اور چین کو اس کی کتنی فکر ہے، کیونکہ چینی فوج کم و بیش وہیں ڈٹی ہوئی ہے جہاں آ کر وہ خیمہ زن ہوئی تھی۔
 لیکن انڈیا نے چین کی قیادت والے علاقائی تجارت کے معاہدے آر سی ای پی سے الگ رہ کر یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ اس نے اب چین سے دور ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
لیکن یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ انڈیا کی ٹریڈ پالیسی کی جہت اس وقت بالکل صاف ہے، کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے چینی سامان کے لیے راستے اور کھل جائیں۔
انڈیا نے شروع سے اس معاہدے سے متعلق مذاکرات میں شرکت کی تھی لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے سے اسے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ معاہدے میں شامل 15 میں سے صرف تین کو چھوڑ کر باقی سبھی ممالک سے اس کے فری ٹریڈ ایگریمنٹ پہلے سے موجود ہیں۔ 

انڈیا میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی شروع کی گئی: فوٹو اے ایف پی 

لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا فری ٹریڈنگ بلاک ہوگا، یورپی یونین سے بھی کہیں بڑا۔ معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں سوا دو ارب لوگ رہتے ہیں اور ان کی معیشتوں کا کل ہجم تقریباً 26 کھرب ڈالر ہے۔
اس لیے اس سے باہر رہنے کا فیصلہ آسان نہیں رہا ہوگا اور اس کا تعلق تجارت میں نفعے نقصان سے کم اور سیاست سے زیادہ ہے۔
کسی بھی نئے تجارتی معاہدے کو جمنے میں وقت لگتا ہے لیکن برطانیہ کو چھوڑ کر باقی یورپی ممالک اس بات کے گواہ ہیں ہیں کہ یورپی یونین نے کس طرح علاقے میں سیاست اور تجارت دونوں کو بدلا ہے۔
انڈیا کے لیے چیلنج یہ ہےکہ اسے اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آر سی ای پی سے الگ رہنے کا فیصلہ درست تھا اور اس کے  پاس تجارت کے فروغ کے لیے ایک متبادل حکمت عملی موجود ہے جس پر وہ تنہا عمل کر سکتا ہے۔
گذشتہ برس نومبر میں جاپان نے یہ کہا تھا کہ اگر انڈیا اس معاہدے سے باہر رہتا ہے تو وہ بھی اس پر دستخط نہیں کرے گا۔ لیکن معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں جاپان بھی شامل ہے۔

15 نومبر کو 15 ممالک نے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ کیا لیکن اس میں انڈیا شامل نہیں تھا: فوٹو اے ایف پی

چین جاپان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات بھی ہیں۔ جاپان چار ممالک کے اس غیر رسمی گروپ (کواڈ) میں بھی شامل ہے جسے چین اپنا حریف مانتا ہے۔جاپان کے علاوہ کواڈ میں امریکہ، آسٹریلیا اور انڈیا بھی شامل ہیں۔
جاپان نے آر سی ای پی میں انڈیا کی شمولیت کا راستہ کھلا رکھا ہے، اور ظاہر ہے کہ چین اور باقی ممالک کی بھی اس بات میں دلچسپی ہوگی کہ آگے چلکر کسی مرحلے پر انڈیا بھی اس میں شامل ہو جائے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انجام کار ملک بھی اپنا اپنا مفاد دیکھتے ہیں، معیشتیں صرف دوستی کے سہارے نہیں چلا کرتیں۔ اور یہ ہی انڈیا کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔
دوست کا دشمن ہمیشہ دشمن نہیں ہوتا۔

شیئر: