Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خادم رضوی کی نماز جنازہ لاہور میں ادا، سعد رضوی جانشین

علامہ خادم حسین رضوی جمعرات کی شب انتقال کر گئے تھے۔ (فوٹو:اے ایف پی)
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ  لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں ادا کر دی گئی۔
سربراہ ٹی ایل پی خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ ان کے صاحبزادے علامہ سعد حسین رضوی نے پڑھائی۔ خادم حسین رضوی کے بیٹے علامہ سعد حسین رضوی کو ہی ان کا جانشین مقرر کیا گیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں ہزاروں افراد کی شرکت کی۔ ان کی جماعت اور کارکنوں نے آخری رسومات کے لیے مینار پاکستان کا انتخاب کیا۔ جنازے کے انتظامات دو دن سے جاری تھے۔
اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق سنیچر کی صبح آٹھ بجے ہی لوگ مینار پاکستان کے پارک جسے گریٹر اقبال پارک کہا جاتا ہے اس میں پہنچنا شروع ہو گئے۔ ضلعی انتظامیہ نے اقبال پارک کے داخلی راستوں پر ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے تاکہ آنے والوں کی سکیورٹی کا مناسب بندوبست ہو سکے۔ 
صبح نو بجے خادم حسین رضوی کی میت ان کے گھر ملتان روڈ سے ایمبولینس کے ذریعے مینار پاکستان کی طرف لے جائی گئی۔ دوسری طرف نو بجے تک اقبال پارک بھی بھر چکا تھا۔ جہاں ایک سٹیج کے علاوہ طاقتور سپیکر بھی لگائے گئے۔

جنازے میں پارٹی کے ہزاروں کارکنان اور ان کے معتقدین نے شرکت کی (فوٹو: اے ایف پی)

نامہ نگار کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے میٹرو بس سروس بھی معطل کر دی۔ جبکہ مینار پاکستان سے قریب دو کلومیٹر دور ناصر باغ سے راستہ عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کو پہلے ہی ایڈوائزری جاری کر دی گئی تھی کہ اقبال پارک کی طرف غیر ضروری طور پر جانے سے گریز کیا جائے۔ معتقدین کی ایک بڑی تعداد ایمبولینس کے ساتھ پیدل چل رہی تھی جس سے ایمبولینس کو مینار پاکستان پہنچنے کے لیے غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
سکیم موڑ ملتان روڈ سے یہ سفر کئی گھنٹوں بعد اختتام پذیر ہوا لگ بھگ دو بجے خادم حسین رضوی کی میت گریٹر اقبال پارک پہنچا دی گئی۔ تاہم لوگوں کی تعداد  انتظامیہ کی توقع سے کہیں زیادہ ہو گئی۔ اسی گریٹر اقبال پارک میں میں پچھلے سال نومبر میں جب خادم رضوی زندہ تھے تو ایک جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کے جنازے میں ان کے جلسے سے زیادہ لوگ تھے۔
کراچی سے پشاور تک سے آئے ہوئے لوگوں نے اس نماز جنازہ میں شرکت کی۔ کراچی سے آئے ہوئے ایک ان کے کارکن محمد بشیر نے اردو نیوز کو بتایا ’ہم بابا جی کی رحلت کی خبر سن کر ہی کراچی سے چل پڑے تھے اور ہماری خواہش تھی کہ ان کا جنازہ تھوڑی تاخیر سے پڑھایا جائے ہم کل رات ہی پہنچ گئے اور اب اپنے ہاتھوں سے اپنے قائد کو رخصت کیا۔‘

جنازے میں دیگر شہروں سے بھی بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی (فوٹو: اے ایف پی)

جنازے میں لوگوں نے کورونا سے متعلق احتیاتی تدابیر کو یکسر نظر انداز کیا۔ ایک کارکن محمد شکیل سے جب پوچھا کہ انہوں نے ماسک کیوں نہیں لگایا تو ان کا کہنا ’ہمیں کورونا سے ڈر نہیں لگتا۔‘ البتہ ان کے ساتھ کھڑے عارف علی ماسک پہنے ہوئے تھے۔ 
اگرچہ  لاوڈ سپیکروں سے لوگوں کو کورونا سے بچنے کے لیے احتیاط برتنے کی تاکید کی جا رہی تھی لیکن یہ غیر موثر تھی۔
ایمبولینس جس راستے سے مینار پاکستان لائی جا رہی تھی اس راستے میں جگہ جگہ پے تعزیتی بینر لگائے گئے تھے۔ جن پر درج تحریر پر لوگوں کو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی اپیل کی گئی تھی۔ اقبال پارک کے بھر جانے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے داتا دربار سے اقبال پارک تک جانے والی سڑک پر ہی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
اقبال پارک میں پہنچنے کے لیے لوگوں کو چاروں اطراف سے لگ بھگ دو کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑا لیکن اس کے باوجود ایک بڑے جم غفیر نے خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اڑھائی بجے کے قریب ان کن نماز جنازہ ان کے بیٹے سعد رضوی نے پڑھائی۔
خیال رہے علامہ خادم حسین رضوی جمعرات کی شب انتقال کر گئے تھے۔
وہ گذشتہ چند روز سے بخار میں مبتلا تھے۔ خادم رضوی کو طبعیت بگڑنے پر شیخ زاید ہسپتال لے جایا گیا۔  تاہم ہسپتال انتظامیہ کے مطابق وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔
جنازے سے قبل علامہ خادم حسین رضوی کی میت ان کی رہائش گاہ پر کارکنوں اور عقیدت مندوں کے دیدار کے لیے رکھ دی گئی تھی۔
نماز جنازہ سے قبل شہریوں کو نقل و حرکت میں دشواری سے بچانے کے لیے ٹریفک کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔

خادم حسین رضوی کون تھے؟

خادم حسین رضوی کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔ وہ حافظ قرآن اور شیخ الحدیث بھی تھے۔ وہ 22 جون 1966 کو اٹک کے علاقے نکہ توت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام لعل خان تھا۔
انہوں نے چوتھی جماعت تک تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے والد نے انہیں جہلم کے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا جہاں انہوں نے قرآن حفظ کیا۔
سنہ 1980 میں وہ مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور جامعہ نظامیہ رضویہ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی جہاں سے وہ 1988 میں فارغ التحصیل ہوئے۔ انہیں پنجابی، اردو، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

خادم حسین رضوی کے صاحبزادے علامہ سعد حسین رضوی کوان کا جانشین مقرر کیا گیا ہے: فوٹو تحریک لبیک پاکستان

خادم رضوی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی حمایت کی اور انہیں پھانسی دیے جانے کے بعد اسلام آباد میں احتجاج بھی کیا تھا جس کے بعد وہ خبروں میں آنا شروع ہوئے۔
اگرچہ ان کا احتجاج تو چند روز میں ختم ہوگیا تھا تاہم اس کے بعد مسلسل ان کے بیانات آتے رہے۔
نومبر 2017 میں ہی لاہور کے حلقہ 120 میں ضمنی الیکشن کے موقع پر تحریک لبیک سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور سات ہزار کے قریب ووٹ بھی حاصل کیے۔
یاد رہے کہ اس الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز تھیں۔
خادم حسین رضوی کی جماعت، تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا اور سندھ اسمبلی سے دو نشستیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر پورے ملک سے 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔

شیئر: