Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خادم رضوی کے بعد تحریکِ لبیک کا مستقبل کیا؟

خادم حسین رضوی 2017 میں ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد پہلی بار سامنے آئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ہنگامہ خیز باب بظاہر اس وقت بند ہوا ہے جب ایک نوزائیدہ مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی انتقال کرگئے۔ 
خادم رضوی جب سے ملکی سیاسی افق پر نمودار ہوئے ان کے کاٹ دار لہجے نے نہ صرف سوشل میڈیا پر اپنی جگہ بنائی بلکہ دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ملک بھر سے بیس لاکھ ووٹ حاصل کر کے سیاسی پنڈتوں کو ورطہ حیرت میں بھی ڈال دیا۔
سخت گیر موقف رکھنے والے خادم رضوی اس دنیا میں اب نہیں رہے تو سب سے بڑا سوال جو ابھر رہا ہے وہ اس جماعت کے سیاسی مستقبل کا ہے جو بظاہر ان کی ہی شخصیت کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔
پنجاب کی مذہبی جماعتوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے لاہور کے صحافی آصف محمود کے خیال میں تحریک لبیک پاکستان خادم رضوی کے بعد کمزور ہوگی۔ ’میرے پاس یہ کہنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ جب ممتاز قادری کے معاملے پر سب سے پہلے تحریک لبیک کے علما کے قدرے سخت گیر اکٹھ نے اپنا نعرہ بلند کیا تو اس کی قیادت تین بڑے لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔ ایک خادم رضوی،  دوسرے اشرف آصف جلالی اور تیسرے پیر افضل قادری، لیکن جلد ہی یہ اتحاد ٹوٹ گیا اور فیض آباد دھرنے کے بعد ان تینوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ 
خادم رضوی نے سیاسی جماعت رجسٹر کروا لی اور اس کا نام تحریک لبیک یا رسول اللہ سے تحریک لبیک پاکستان کر دیا، جبکہ اشرف آصف جلالی نے پہلے نام کو ہی جاری رکھا۔ البتہ خادم رضوی کی سخت زبان نے بہت جلد ان کی مقبولیت کا سامان کر دیا اور باقی دھڑے سیاسی افق پر پیچھے رہ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ اس جماعت میں خادم رضوی کے بعد کوئی ایسا نام نہیں ہے جو ان کی جگہ لے سکے۔ لامحالہ اب یہ جماعت قیادت نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ہو گی۔‘
آصف محمود یہ سمجھتے ہیں کہ 'اس وقت مستقبل کی قیادت کے لئے دو ناموں پر غور ہو رہا ہے ایک ہیں شفیق امینی جو کہ جماعت کے نائب امیر بھی ہیں ان کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جبکہ دوسرے امیدوار کے طور پر خادم رضوی کے صاحب زادے سعد رضوی کو دیکھا جا رہا ہے جو کہ نائب ناظم کے عہدے پر ہیں اور جماعت کا سوشل میڈیا ونگ بھی وہی دیکھتے ہیں۔‘

سنہ 2017 میں خادم حسین اس وقت مشہور ہوئے جب انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران دھرنا دیا تھا (فوٹو اے ایف پی) 

آصف محمود کے مطابق 'شفیق امینی ایک مرتبہ قائم مقام امیر بھی رہ چکے ہیں جب دو ہزار انیس میں خادم رضوی گرفتار ہوئے تھے۔ لیکن اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ جس طرح کا تعلق کارکنوں کا خادم رضوی کے ساتھ تھا کیا نئی لیڈرشپ کے ساتھ ویسا ہی تعلق استوار رہے گا؟ جس کا جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ لوگ خادم رضوی کے علاوہ کسی کو بھی اس طرح سے نہیں جانتے۔‘
قیادت کی کشمکش:
پاکستان میں سیاسیات کے استاد پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ خادم رضوی کے انتقال کا بے پناہ اثر خود ان کی جماعت پر پڑے گا۔
'اس جماعت پر بات کرنے سے پہلے سمجھنا ہو گا کہ یہ کس بنیاد پر کھڑی ہے۔ ممتاز قادری کے واقعے کے بعد خادم رضوی نے بہت ہی موثر طریقے سے ان جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور باقاعدہ ایک جماعت تشکیل دے دی۔‘
'اس سے پہلے سنی تحریک نامی ایک جماعت کراچی میں نمودار ہوئی تھی البتہ اس کو عوامی پذیرائی نہ مل سکی۔ خادم رضوی نے اپنی قیادت میں ان سب کو چھت فراہم کی۔ اب ان کے جانے کے بعد قیادت کا بحران اس جماعت کے لیے ضرور پیدا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اشرف جلالی والا دھڑا بھی واپس آنے کی کوشش کرے جو کہ بظاہر مخدوش ہے۔ لیکن جو بھی اب کرتا دھرتا ہیں وہ اس بنی بنائی کہانی کو فوری ختم نہیں ہونے دیں گے لیکن اس کے لیے انہیں اسی قد کاٹھ کے لیڈر کی ضرورت ہو گی جو بظاہر ابھی پردہ سکرین پر نہیں۔‘
سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ 'اس جماعت کو ایک سرد قسم کی داخلی جنگ کا بھی سامنا ہو گا کیونکہ اب ہر کسی کی کوشش ہو گی کہ اس گدی پر بیٹھے۔ خادم رضوی کے بعد ایک مشکل دور سے تو تحریک لبیک کو گزرنا ہو گا کیونکہ یہ ساری جماعت ایک شخصیت کے گرد گھومتی تھی۔ اب وہ شخصیت مائنس ہو گئی ہے تو اب اس جماعت کی شکل مستقل بدل جائے گی۔ یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود تو رہے گی لیکن اب اس کے پھیلاؤ کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔‘ 

شیئر: