Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

حکومت مخالف جلسوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اسے حسن اتفاق کہیں یا اپوزیشن کی بد قسمتی کہ موجودہ سیاسی تحریک جس کا مومینٹم بڑھانے میں اپوزیشن شب و روز جتی ہوئی تھی اس کا تال میل جانے انجانے میں کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ 
اس کا ذمہ دار کسی ایک کو قرار دینا درست نہ ہوگا۔ اس دوسری لہر کے تیز ترین پھیلاؤ میں عوام، حکومت اور اپوزیشن، سب نے ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالا ہے۔
ماہرین چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ دوسری لہر میں وبا کا زور پہلے سے زیادہ اور پھیلاؤ بھی تیز تر ہوتا جا رہا ہے  لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔
 یہ بات تو طے ہے کہ اس ضمن میں سب سے بھاری ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ عوامی سرگرمیوں پر پابندی سے لے کر معاشی سہولیات کی فراہمی تک تمام اقدامات حکومت کو ہی کرنے ہیں۔ مگر حکومت کا ابھی تک رد عمل محدود دکھائی دیتا ہے۔ 
اپوزیشن سے جلسوں اور تقریبات پر پابندی کا مطالبہ اپنی جگہ درست ہے لیکن ہر روز سرکاری تقریبات اور وزرا اور مشیران کی عوام میں گھری ہوئی سرگرمیوں کے مناظر ان کی اپنی دلیل کو کمزور کر دیتے ہیں۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لاک ڈاؤن، اجتماعات اور نقل وحرکت کو کم کرنا ہی وہ واحد حل ہے جس کے ذریعے وبا کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ پھر بھر رہے ہیں اور اکثر والدین خود خطرے کے پیش نظر بچوں کو سکول سے چھٹیاں کرا رہے ہیں۔ 
این سی اوسی نے مگر ابھی تک سوائے شادی کے مہمانوں اور دوکانوں کے اوقات کے علاوہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس سے لوگوں کے اکٹھا ہونے کو روکا جا سکے۔ 

حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم نے جلسوں پر پابندی کا حکومتی فیصلہ مسترد کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

 لوگوں کے اکٹھا ہونے کی ایک قسم مگر ایسی ہے جس پر حکومت کی خوب توجہ ہے اور وہ ہے اپوزیشن کے جلسے۔ ان جلسوں کے حوالے سے وزرا بھی خوب برس رہے ہیں، وزیر اعظم بھی تبصرہ فرما چکے ہیں اور انتظامیہ بھی حرکت میں رہتی ہے۔ جلسوں کے علاوہ جو عوام کے ہجوم البتہ حکومت کی نظروں سےاوجھل ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ، منڈیاں اور بازار عبادت گاہیں اور آخری رسومات سب معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ 
یہ بات واضح ہے کہ کورونا کے تناظر میں حکومت اپنا تمام زور اپوزیشن کے جلسوں میں حاضری کم کرنے اور میڈیا میں ان کو غیر ذمہ دار ثابت کرنے میں لگا رہی ہے۔ 
  کورونا کی دوسری لہر کے پھیلاؤ میں لکھنے والے اپوزیشن کی خود غرضی اور غیر ذمہ داری  پر علیحدہ ایک روشن باب لکھیں گے۔ جہاں حکومت پر تنقید اور تبصرہ ہو گا وہاں اپوزیشن کی بے حسی کا ذکرخیر بھی ہو کر رہے گا۔  
ن لیگ  اور جے یو آئی ف تو ہر اعتبار سے اپنی کشتیاں جلا کر میدان میں آئے ہیں مگر پیپلز پارٹی توسندھ میں حکومت ہونے کی وجہ سے عوام کی بہبود کی براہ راست ذمہ دار ہے۔ اب کس منہ سے پیپلزپارٹی سندھ میں اجتماعات پر پابندی لگائے گی جب کہ اس کے لیڈر کوئٹہ، گلگت اور پشاور میں شدومد سے جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ اور اگر پیپلز پارٹی سندھ میں بھی  اجتماعات جاری رکھتی ہے تو یہ اس کی اپنی اعلان کردہ پالیسی سے روگرادنی ہو گی۔ 

’ عوام کی صحت اور جانوں کے تحفظ کے معاملے پر سیاست نہیں ڈائیلاگ ہونا چاہیے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پی ڈی ایم کے عوامی جلسوں کو جاری رکھنے کے فیصلے نے اپوزیشن کا کورونا جیسے عوامی ایشو پر تضاد اور مفادات کا ٹکراؤ واضح کر دیا ہے۔
یہ حقیقت بھی ظاہر ہے کہ اپوزیشن کو عوامی مفادات سے زیادہ اپنا سیاسی مومینٹم عزیز ہے۔ یہ بات اپوزیشن کے بھی علم میں ہے کہ جس طرح انہوں نے پچھلے دو برس بغیر سیایسی سرگرمیوں کے گزارے اس طرح اگلے چند ماہ گزارنا کوئی خاص مشکل نہیں ہوگا۔ باوجود حکومت کی غیر سنجیدہ اپروچ کے، یہاں سوال اپوزیشن کی  سیایسی بالغ نظری اورسنجیدگی کا بھی ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی دوسری لہر میں کیے جانے والے اقدامات حکومت اور اپوزیشن کی سیاست کی نظر ہو رہے ہیں۔ دونوں میں بچگانہ پن، غیر سنجیدگی اور مفاد پرستی کا مقابلہ ہے۔ یہ غیرصحت مندانہ مقابلہ نہ صرف عوام اور ملک کے لیے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے بلکہ امکان یہ ہے کہ جانی نقصان میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آج کل میدان سیاست میں گرینڈ ڈائیلاگ اور قومی مشاورت وغیرہ کا بھی تذکرہ ہے۔ سیاست اور احتساب پر یہ گرینڈ ڈائیلاگ ہو نا ہو مگر صحت اور عوام کی جانوں کے تحفظ کے معاملے پر سیاست نہیں ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ 
کیا ہی اچھا ہو اگر کم از کم جان اور صحت کے معاملات پر سیاست نہ کی جائے؟ اور کیا ہی اچھا ہو اگر وزیراعظم  کی طرف سے ذاتی طور پر پی ڈی ایم کی قیادت کو سیاسی اجتماعات موخر کرنے کی تجویز دی جائے اور کیا ہی اچھا ہو یہ تجویز خوش دلی سے قبول کر لی جائے؟ اس سے ملک کا سیایسی ماحول بھی بہتر ہوگا اور کورونا پر کنٹرول بھی مگر کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

شیئر:

متعلقہ خبریں