Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 جازان کی خودرو پہاڑی ’کافی‘

کافی کی پیداوار تجارتی بنیادوں پر نہیں ہوتی (فوٹو، العربیہ)
سعودی عرب کا جنوب مغربی علاقہ جازان انواع و اقسام کی کافی کے لیے مشہور ہے۔ یہاں الریث کمشنری میں ’القھر‘ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اگنے والی خودرو کافی منفرد ذائقہ رکھتی ہے۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق الریس کے القھر پہاڑوں کی چوٹیاں خولانی کافی کے درختوں سے آباد ہیں۔ اسے چٹانی کافی اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے درخت چٹانوں پر خود سے اگتے ہیں۔ ان کی کاشت میں کسی انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 

چٹانی کافی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے درخت چٹانوں پراز خود اگتے ہیں (فوٹو، العربیہ)

مسرع الریثی نامی کاشت کار نے بتایا کہ وہ نوجوانی کے زمانے میں جازان سے باہر ملازمت کرتا رہا۔ دو برس قبل وطن واپسی پر یہ دیکھ کر دکھی ہو گیا کہ اس کے والد کے کافی کا زرعی فارم تباہ ہو گیا ہے۔ کافی کے درخت سوکھ گئے ہیں۔ ’صرف پانچ درخت باقی تھے جن کے نیچے میں نے کافی کے قلم لگائے، ان سے ٹہنیاں اور جڑیں اگ آئیں۔ رفتہ رفتہ یہ پانچ درخت 70 سے زیادہ پھلدار درختوں میں تبدیل ہو گئے۔‘  
الریثی نے بتایا کہ ان کے ہاں زرعی فارموں میں کافی کے درختوں کو البن الصخری کہتے ہیں۔ یہ نام اس لیے پڑا کیونکہ اس کے درخت ماضی بعید سے چٹانوں کے درمیان اگتے ہیں۔ 
آباو اجداد کے زمانے سے ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں۔ کافی کے ان درختوں کی آبپاشی چٹانوں پر برسنے والی بارش سے ہوتی ہے۔ کافی کے درخت وادیوں کے سیلاب کے ساتھ آنے والی زرخیز مٹی اور چٹانوں کے ریزوں سے حاصل کرتے ہیں۔ کافی کے دانے درخت کے نیچے گرتے ہیں تو ان کے نئے درخت اگ آتے ہیں ۔ ان کی کاشت میں کسی کا حصہ نہیں ہوتا۔ 

جتنی کافی یہاں پیدا ہوتی ہے وہ کاشت کار اور انکے رشتے داروں کےلیے ’کافی‘ہوتی ہے ۔

الریثی نے کہا کہ اس قسم کی کافی منفرد ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کافی کی کبھی مارکیٹنگ نہیں کی گئی کیونکہ جتنی کافی یہاں پیدا ہوتی ہے وہ کاشت کار اور اس کے رشتے داروں کے لیے کافی ہوتی ہے۔
’کئی لوگ ہم سے کافی خریدنا چاہتے ہیں لیکن اس کی پیداوار تجارتی بنیادوں پر نہیں ہوتی۔ جتنی یہ پیدا ہوتی ہے مقامی طور پر ہی استعمال کر لی جاتی ہے۔‘

شیئر: