Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کافی کی کاشت اور کاروبار کرنے والی سعودی ماں بیٹیاں

 کافی کے درخت لگانے کے شوق کو خاندانی کاروبار میں تبدیل کر دیا۔(فوٹو عرب نیوز)
ایک 75 سالہ سعودی ماں نے خولانی کافی کے درخت لگانےکے لیے زندگی بھر کے شوق کو خاندانی کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔
جمیلہ سالم المالکی کئی دہائیوں سے مملکت کے جازان ریجن میں اپنی زمین پر درختوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔
خولانی کافی سیکڑوں سالوں سے اس خطے کی سرزمین میں کاشت کی جا رہی ہے اور اسے دنیا کی بہترین کافیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
المالکی کی مہارت کو ان کی آٹھ بیٹیوں نے سیکھ لیا ہے جو اب اس خاندان کے فارمنگ کاروبار کو چلانے میں مدد کرتی ہیں۔
یہ خواتین ہر روز طلوع صبح کے بعد اپنے گاؤں کی زمینوں پر 300 سے زیادہ درختوں کو پیار سے دیکھتی ہیں۔
المالکی نے جازان میں کافی کے دیگر کسانوں کی طرح چھوٹی عمر سے ہی دوسروں کو دیکھ کر اور عملی تجربے کے ذریعے یہ تجارت سیکھی ہے۔
جمیلہ سالم المالکی 75 سال کی عمر کے باوجود  اب بھی ہل چلاتی ہیں، پتیوں کو تراشتی ہیں، پھلیاں کاٹتی ہیں اور اسے بازار میں فروخت کرنے سے پہلے ان کا  پانی خشک کرتی ہیں۔
الدایر بنی مالک کمشنری کی رہائشی  المالکی مملکت کے جنوب میں کافی کاشت کرنے والی کمیونٹی میں ایک مقامی افسانہ بن  گئی ہیں۔
درختوں کے ساتھ ان کا رشتہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے فطری احساس سے پیدا ہوتا ہے جہاں ان کی خاندانی جڑیں کئی نسلوں سے گزرتی ہیں۔
المالکی نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران فارم میں توسیع کی ہے اور اب وہ اپنے پسندیدہ درختوں کو لگانے کے لیے وقف آٹھ قطعہ اراضی کی مالک ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران فارم میں توسیع کی ہے(فوٹو عرب نیوز)

المالکی نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ کافی کے درخت کو ’مقدس‘ سمجھتی ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی۔
ان کے خاندان نے حقیقت میں کھیت کی پیداوار گھریلو استعمال اور گاؤں میں رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ بانٹنے کے لیے استعمال کی تھی۔
انہوں نے کہا ’ماضی میں کافی کے درخـت کی پھلیوں کی تجارت کرنا شرمناک تھا اور اس کے بجائے انہیں علاقے سے باہر آنے والے رشتہ داروں اور مہمانوں کو بطور تحفہ پیش کیا جاتا تھا یہ ایک مقامی روایت اور رواج ہے۔‘
تاہم خولانی کافی کی پھلیاں اب عالمی سطح پر استعمال ہونے والی مصنوعات بن چکی ہیں۔ کافی کی طلب میں بین الاقوامی عروج نے مقامی معیشت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی ہے اور بہت سے کھیت بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ آپریشن بن چکے ہیں۔

المالکی کا فارم وزیٹرز کے لیے کھلا ہے(فوٹو عرب نیوز)

المالکی نے کہا کہ ان کا پورا ارادہ ہے کہ وہ اپنی زرعی صلاحیتوں کو فروغ دیتی رہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’میں انتہائی درست معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں جو کافی کے درخت کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کے طریقے سیکھنے کو یقینی بنائے۔‘
سعودی وزارت زراعت کی صوبائی شاخ کاشتکاروں کو ان کی تکنیک کو بہتر بنانے میں مدد کے لیے کورسز اور ورکشاپس چلاتی ہے اور المالکی مستقبل میں اجلاسوں میں شرکت کی امید کرتی ہیں۔
اپنی مہارت اور معلومات میں اضافہ کرکے اس کا مقصد جازان بزنس ایوارڈ سکیم میں 3 ملین سعودی ریال کی انعامی رقم کے لیے بھی مقابلہ کرنا ہے۔ المالکی کا فارم وزیٹرز کے لیے کھلا ہے جو روایتی اوزاروں کے ذریعے چلنے والی عمرانی زرعی سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں۔

شیئر: