Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سکھ برادری کی ایک بھی شادی رجسٹرڈ کیوں نہیں؟

پاکستان کا سکھ میرج ایکٹ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ایکٹ ہے جو سکھ کمیونٹی کے مذہبی معاملات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ابھی تک اُس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جو گذشتہ دور حکومت میں سکھوں کی شادیوں سے متعلق بنایا گیا تھا۔ سکھ میرج ایکٹ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے منظور کیا تھا۔
ن لیگ کے اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی رامیش سنگھ  اروڑا جو اس وقت پارلیمانی سیکرٹری تھے انہوں نے ہی یہ بل اسمبلی میں جمع کروایا تھا۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سکھ میرج ایکٹ ان کی حکومت نے منظور کر لیا تھا ’2018 میں ہم نے متفقہ طور پر اسے منظور کیا تھا لیکن اس کے بعد ہماری حکومت نہ رہی۔ صرف یہ ہونا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت رولز بننا تھے اور اس کے مطابق رجسٹریشن شروع ہو جانا تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں سکھوں کی شادیاں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں ’اس میں ہماری آبادی 30 ہزار کے قریب ہے اور لگ بھگ چھ ہزار ایسے افراد ہیں جو شادی شدہ ہیں۔ چونکہ ملکی قانون میں ہمارے مذہب کے مطابق شادی رجسٹریشن کی گنجائش نہیں تھی اس لیے ایک بھی شادی رجسٹرڈ نہیں۔ ہم بس اپنے مذہب کے مطابق شادی کر لیتے ہیں۔ اور جب کبھی قانونی اعتبار سے ضرورت پڑتی ہے تو متعلقہ گوردوارے سے ایک این او سی بنوا کر نادرا سے عارضی سرٹیفیکیٹ لیتے ہیں اور اس سے کام چلا لیتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں بننے والا سکھ میرج ایکٹ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ایکٹ ہے جو مکمل طور پر سکھ کمیونٹی کے مذہبی معاملات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ سکھ آبادی بھارت میں ہے وہاں بھی سکھ شادیاں ہندو ایکٹ کے تحت ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سکھ آبادی کینیڈا میں ہے اور وہاں بھی سکھ شادی رجسٹریشن کے لیے مذہب سے موافق قوانین نہیں ہیں۔
رامیش سنگھ اروڑا نے بتایا کہ ’پاکستان نے اس قانون کو دو سال پہلے بنایا لیکن تحریک انصاف کی حکومت سے صرف رولز نہیں بن سکے قانون پاس ہونے کے باجود ایک بھی سکھ شادی دو سالوں میں رجسٹرڈ نہیں ہو سکی۔‘

پاکستان میں سکھوں کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے چھ ہزار شادی شدہ ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی مہندر پال سنگھ جو کہ پارلیمارنی سیکریٹری برائے انسانی حقوق ہیں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بہت جلد رولز بنا لیے جائیں گے ’رولز مکمل کر کے وزارت قانون کو بھیج دیے ہیں اس کے علاوہ کچھ مزید ترامیم بھی کی گئی ہیں جو کہ اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔‘
انہوں نے تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی کرتار پور کے معاملے پر وہ کام کیا ہے جس سے پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ کرتار پور کی وجہ سے ساری توجہ ادھر رہی۔ اور ہمارے خیال میں اس قانون میں مزید تبدیلیاں بھی ضروری تھیں جو کہ اب کر لی گئی ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ ایسی کیا تبدیلیاں تھیں جو اپنی نوعیت کے واحد سکھ قانون میں نافذ کرنے سے پہلے ہی ضروری ہو گئی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں جو طلاق کا طریقہ اس قانون میں درج تھا اس میں تین مہینے تک اگر کوئی بھی فرد یونین کونسل میں ظاہر نہیں ہوتا تو خود بخود طلاق ہو جائے گی۔ جبکہ اب یہ ترمیم شامل کی گئی ہے کہ اگر ایک مہینے تک فریقین یونین کونسل میں ظاہر نہیں ہوتے تو معاملہ پانچ امرت دھاری سکھوں پر مشتمل کمیٹی کے سامنے جائے اور ہر صورت میں انہیں طلاق کے معاملے پر مطمئن کرنا ہوگا۔ اور یہی سکھ مذہب ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ رولز اور قوانین جلد دوبارہ اسمبلی میں پیش کیے جائیں گے اور مارچ میں ایک بڑی تقریب میں سکھ جوڑوں کی شادی اور رجسٹریشن کا عمل پوری دنیا کو دکھائیں گے۔
’ہماری خواہش ہوگی کہ دنیا بھر میں جہاں سکھ آباد ہیں وہاں اس قانون کے مطابق قانون بنایا جائے۔‘

شیئر: