Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکول کب کھلیں گے؟

گھر میں بیٹھنے سے بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی صحت متاثر ہو رہی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
آپ دلی سے باہر نکلیں تو لگتا ہے کہ کورونا وائرس کوئی تہوار ہے جسے بڑے زور شور سے منایا جارہا ہے۔ بچے ہوں یا بڑے سب یہاں وہاں گھومتے پھر رہے ہیں جیسے کورونا وائرس اگر کبھی آیا بھی تھا تو اب اپنے گھر کو لوٹ چکا ہے۔
لیکن نہ معلوم کیوں سکول اب بھی ویران پڑے ہیں۔ بس سکولوں کے علاوہ ہر جگہ رونق ہے۔ کچھ پرائیویٹ سکولوں نے بڑے بچوں کو کبھی کبھی سکول آنے کی اجازت دی ہے لیکن سیاحوں کی طرح، تھوڑی بہت دیر کے لیے آؤ، یار دوستوں سے ملو اور اگر کچھ سمجھنا ہو تو ٹیچر کے بھی درشن کر لو، لیکن ملک بھر میں غریب بچوں کے لیے تعلیم کا سلسلہ آٹھ ماہ سے تقریباً پوری طرح رکا ہوا ہے۔
اور یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب باقی سارے کام ہو رہے ہیں، فیکٹریاں کھلی ہوئی ہیں، دکانوں پر صبح سے شام تک خریداروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے، بازاروں میں ایسا لگتا ہےکہ سامان مفت میں تقسیم کیا جا رہا ہو، اتنی ٹریفک ہے کہ جگہ جگہ سڑکیں جام رہتی ہیں تو پھر سکول کھولنے سے ہی کون سی قیامت آجائے گی؟
ایسا نہیں ہے کہ سکول کھولنے میں بالکل خطرہ نہیں ہے لیکن سکول بند رکھنے سے ہی کیا بچوں کی حفاظت ہو رہی ہے؟ ایسا کون سا کام ہے جو وہ نہیں کر رہے۔ میں ایک ہفتے سے مغربی اتر پردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں سفر کر رہا تھا اور میں نے شدید سردی میں بچوں کو وہ سب کرتے دیکھا جو انہیں کبھی نہیں کرنا چاہیے، بچے گھروں میں بے کار بیٹھے ہیں اور غریب ماں باپ انہیں کام پر لگا رہے ہیں۔ اور اب خطرہ یہ ہے کہ تعلیم سے ان کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ سکتا ہے۔
صرف انڈیا میں تقریباً 30 کروڑ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ 60 لاکھ بچے پہلے سے ہی تعلیم سے محروم تھے اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ تقریباً طے ہے۔
سکولوں کی حالت پر جاری کی جانے والی ایک سالانہ رپورٹ ( اینوئل سٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ) کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد چار فیصد سے بڑھ کر ساڑھے پانچ فیصد ہوگئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ، تقریباً تین گنا، چھ سے دس سال کی عمر کے زمرے میں ہوا ہے اور ایک مرتبہ ان بچوں کا سکول چُھوٹا تو پھر کیا امکان ہے کہ وہ تعلیم کی ڈور دوبارہ پکڑ پائیں گے۔
اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آن لائن تعلیم مسئلے کا حل ہے تو آپ کسی گاؤں میں تھوڑا وقت گزاریے۔ انڈیا میں تقریباً 40 فیصد بچوں کو سمارٹ فون تک رسائی حاصل نہیں ہے، اگر فون ہے تو انٹرنیٹ کی سپیڈ خراب ہے، کہیں بجلی نہیں ہے اور کہیں کوریج۔ لیکن یہ مسائل بھی صرف ان 11 فیصد بچوں کے لیے ہی ہیں جن کے سکولوں میں کسی قسم کی آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں۔ باقی ان پریشانیوں سے آزاد ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ ہونا کیا چاہیے؟ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی فہرست میں بچے سب سے نیچے ہیں۔ سویڈن سمیت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے کبھی سکول بند ہی نہیں کیے یا کم سے کم زیادہ وقت کے لیے نہیں۔ لیکن یہ چھوٹے ممالک ہیں اور انڈیا جیسے بڑے ممالک کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا ماڈل کام کرے۔

حکام کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ حالات کتنے دنوں میں معمول پر آجائیں گے؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

لیکن دلی کے امریکن ایمبیسی سکول نے دوسرے مقامی سکولوں کو راستہ دکھایا ہے۔ اس سکول میں صرف امیر بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں جنہیں وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو آن لائن تعلیم کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس گنتی میں جو لوگ سمارٹ فونز کو شامل کرتے ہیں انہیں خود تھوڑی دیر سمارٹ فون کی چھوٹی سی سکرین پر فزکس یا کیمسٹری کا لیکچر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
لیکن اس سکول نے ایک سادہ سا فارمولا اختیار کیا ہے۔ ہر ہفتے میں دو دن بچے سکول آتے ہیں اور تین دن آن لائن کلاسز ہوتی ہیں۔ بچوں کو دو گروپس میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایک گروپ پیر اور منگل کو آتا ہے اور دوسرا جمعرات اور جمعے کو۔ بچے ہر وقت ماسک پہنے رہتے ہیں اور سماجی فاصلے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ آدھے بچوں کو بلانے سے یہ کام آسان ہوجاتا ہے۔
اس فارمولے کا ذکر پہلے بھی کئی مرتبہ ہو چکا ہے لیکن جب بھی سکول کھولنے کی بات آتی ہے تو متعلقہ اہلکار کہتے ہیں کہ بچوں کی صحت تعلیم سے زیادہ ضروری ہے۔ کچھ ماہ سکول نہیں جائیں گے تو قیامت نہیں آجائے گئی۔ لیکن اس سوال کا جواب کس کے پاس ہے کہ حالات کتنے دنوں میں معمول پر آجائیں گے؟
گھر میں بیٹھنے سے بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کس طرح متاثر ہو رہی ہے، پوری طرح سے اس کا اندازہ ابھی شاید کسی کو نہیں ہے۔
اور اس کا سب سے زیادہ بوجھ غریب بچے اور ان میں بھی خاص طور پر لڑکیاں اٹھائیں گی۔ اگر ادا کرنا پڑی تو یہ خوفناک قیمت ہوگی۔

شیئر: