Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو سعودی خواتین نے سائنس کے میدان میں صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا

دونوں نے’’سائنس مڈل ایسٹ ریجنل ینگ ٹیلنٹ پروگرام‘‘ میں اعزاز حاصل کئے۔(فوٹو عرب نیوز)
سعودی خواتین میڈیکل سائنس اور تحقیق کے شعبے میں عالمی پذیرائی حاصل کر رہی ہیں،  اسی تناظر میں  دو سعودی خواتین نے حال ہی میں ’’لاریل یونیسکو‘‘سے ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ان دونوں خواتین  نے ’’سائنس مڈل ایسٹ ریجنل ینگ ٹیلنٹ پروگرام‘‘کےلئے کئے جانے والے کام پر یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔
27سالہ سعودی خاتون اسرار دمدم کو پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس کیٹگری میں اعزاز کی حقدار قرار دیا گیا  ہے۔ اسرار نے دل کے لئے ایک خاص قسم کا آلہ  بنانے میں کردار ادا کیا  ہے۔

یہ آلہ صحتمند دل کی حرکات کومنظم کرنے کے طریق کار میں انقلاب کے مترادف ہے ۔ اس کے لئے ادویہ، الیکٹریکل انجینیئرنگ اور الیکٹرو فزکس کو باہم مربوط کیا گیا ہے۔
دمدم نے  بتایا ہے کہ  بعض امراض اور حرکت قلب بند ہوجانے جیسے دل کے رویوں پر مبنی سرگرمیاں ایسی ہیں جو کسی بھی وقت اچانک وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔
محققین ایسے مسائل کے لئے نئے حل دریافت کررہے ہیں۔ہم ایسی ڈیوائس کی تیاری کے امکانات کی تحقیق کر رہے تھے کہ جس میں ایکچویٹر موجود ہو جو دل کے عضلات کی معاونت کرنے اور پمپنگ کے عمل میں مدد دے سکے۔

یہ پراجیکٹ چیلنجز کے بغیر نہیں تھا۔ مارکیٹ میں جو واحد پلیٹ فارم دستیاب تھا وہ مستطیل تھاجو دل کی قدرتی ساخت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
جب دمدم نے  اس پراجیکٹ پر عملی طور پر آغاز کیا تو انہوں نے تحقیق کے لئے قدرتی جیومیٹری کی جانب رُخ کیااور وہ پیچ دار سے لے کر مکڑی کے جالے نما ساخت کے بعد بالآخر شہد کے چھتے تک پہنچ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ شہد کی مکھیوں کے چھتے میں موجود کھجلی کی قطاروں جیسی لچک دار اور کھنچنے کے لائق ساخت میرے لئے انتہائی دلچسپ خیال تھا۔
اس میں متعدد چیلنج موجود تھے۔ مجھے یہ پسند آیا اور میں نے اسے اپنے پروفیسر کو پیش کر دیا۔انہوں نے بھی اسے پسند کیا اور اس کی منظوری دے دی۔
دمدم کو اب میٹریل کے بارے میں غور کرنا تھا۔ سلیکون ان کا پہلا انتخاب تھی کیونکہ یہ سستا  ہونے کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں دستیاب ہے اور اس کی برقیاتی خصوصیات بھی مناسب ہیں۔ان کا بنایا ہوا پہلا نمونہ بہت ہی نازک قرار پایا۔

کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے اگست 2018 میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے ان گنت تجربات و مشاہدات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کی یہ محنت ایک برس کے بعد کامیاب ہوئی۔
دمدم نے کہا کہ یہ ساخت ایسی ہونی چاہئے جو دل کے پھیلنے اور سکڑنے کے عمل کو سہہ سکے اور ٹوٹنے نہ پائے۔سلیکون کےساتھ میں نے شہد کے چھتےکو استعمال کیا۔
اس میں لچک اور پھیلاؤ کی صلاحیت موجود تھی چنانچہ دل کے پھیلنے کے ساتھ یہ پلیٹ فارم ٹوٹتا نہیں۔میں نے اسے جسم اور جلد کی حرکات سے مطابقت کے لئے ا سکی ساخت 0.015 ملی میٹر یا15مائیکرومیٹرز رکھی۔

انہوں نے کہا کہ سلیکون کے استعمال کے ذریعے تشکیل نوکے تصور کا کامیاب مظاہرہ بائیو میڈیکل الیکٹرانکس میں کئی مقامات پر کام آ سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر میری  اس تحقیق کو ترقی دی گئی تویہ ڈاکٹرز کو دل اور شریانوں کے امراض کا ابتدائی مرحلے میں پتا لگانے کے قابل بنا دے گی۔
اس کے علاوہ یہ متعدد سینسرز والے پلیٹ فارمز اور ٹرانسپلانٹیشن کے لئے مصنوعی دلوں کی تیاری میں مدد دے سکے گی۔یہ تحقیق اپلائیڈ فزکس لیٹرز جرنل میں شائع ہوئی جس کے بعد دمدم نے اپنی توجہ نئی کمپنیوں کی دنیا کی جانب مبذول کی اس کے لئے انہیں’’مسک فاؤنڈیشن‘‘ کے تعاون سے کیلیفورنیا میں ایک تربیتی پروگرام سے مدد ملی۔
وہاں انہوں نے ایک مقابلہ جیتا اورغذائی اشیا کی شیلف لائف میں اضافے کے لئے الٹراوائلٹ شعاعوں کے استعمال کے نظریے  روبہ عمل لانے کی خاطر نئی کمپنی کے لئے فنڈنگ بھی وصول کر لی۔
دوسری سعودی خاتون لامہ العبدی  ہیں جنہیں لاریل یونیسکو  پروگرام کے پوسٹ ڈاکٹر ریسرچرز کیٹگری میں کرومیٹن پر ان کی تحقیق کے ساتھ بصارت سے محرومی سے متعلق جینز کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ریسرچ کے اعتراف میں اعزاز دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کرومیٹن ایک مادہ ہے جو کروموسوم میں میں پایاجاتا ہے جو  وراثتی مادے ’’ڈی این اے‘‘ اور پروٹین یعنی لحمیات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
العبدی  جو اس وقت 30 کی دہائی  کے ابتدائی برسوں میں ہیں،انہوں نے اپنا منصوبہ چند برس قبل شروع کیا تھاجو پرڈیو یونیورسٹی، انڈیانا میں ان کی پی ایچ ڈی ریسرچ کی توسیع تھاجس میں لامہ یہ تحقیق کر رہی تھیں کہ مختلف کیمیائی مرکبات میں ہونے والی تبدیلی ڈی این اے پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔
لامہ العبدی نے کہا کہ یہ خود بخود ڈی این اے کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ ڈی این اے کی شکل اور ماحول سے اس کے انداز کو بدل دیتا ہے۔
یہ تبدیلیاں ایک نسل سے  دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی  ہیں جو نشوو نما، جنین کی پیدائش، سرطان،مٹاپے، ذیابیطس، پیچیدہ امراض اور آنکھ میں پائی جانیوالی معمولی بے قاعدگی جیسی سادہ بیماری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
لامہ العبدی جنہوں نے بینائی کے خاتمے کی تھیم کا معائنہ ، کنگ سعود یونیورسٹی میں گریجویشن کے دوران ہی شروع کر دیا تھا، آجکل ریاض کے کنگ فیصل سپیشلسٹ ہاسپیٹل اینڈ ریسرچ سینٹرمیں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
 انہوں نے آنکھوں کو متاثر کرنے والے تغیرات کے بارے میں طبی سمجھ بوجھ کے لئے کافی کام کیا ہے۔لامہ اور ان کی ٹیم نے اپنے مشاہدات کےلئے  ایسے لوگوں کو شامل تحقیق کیا جو آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے کرومیٹن پر تحقیق کا آغاز کیا تو اس وقت میں نے پی ایچ ڈی شروع ہی کی تھی۔
میرے پروفیسر نے ایک مقرر کو مدعو کیاجنہوں نے ڈی این اے کی ترامیم پر گفتگو شروع کر دی۔ یہ میرے لئے حیران کن تھی کیونکہ اس سے قبل میں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا۔
لامہ العبدی آنکھ کی نشونماکے امراض سے متعلق جاری کئی منصوبوں میں شامل ہیں۔
حالیہ ترقی کے باوجودسائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی جیسے پیشوں میں خواتین خصوصاً مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آج بھی اقلیت میں ہیں۔
یونیسکو کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے محققین میں خواتین کی تعداد صرف 28.8 فیصد ہے۔انجینئرنگ ، مینوفیکچرنگ اور تعمیراتی کورسز میں دنیا بھر میں خواتین کی تعداد 8 فیصد ہے  جبکہ نیچرل سائنسز، ریاضی اور شماریات میں ان کی تعداد 5 فیصد نیز انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں ان کی تعداد 3 فیصد ہے۔
وژن2030 کے اعلان کے بعد سے سعودی عرب خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بنیادی کام کر رہا ہے۔العبدی نے کہا کہ میں نوجوان سعودی خواتین کو اپنی دلچسپی اور صلاحیتوں کے فروغ کے لئے دستیاب حوصلہ افزائی اور تعاون سے استفادہ کرتے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں ۔
میں دیکھتی ہوں کہ بہت سی نوجوان اور باصلاحیت خواتین تمام میدانوںمیں اپنے علم کو وسیع کر رہی ہیں۔ مجھے خیال آتا ہے کہ جب میں نوجوانی کی عمر میں تھی، اس وقت ایسے مواقع میسر نہیں تھے لیکن اب ہماری حکومت خواتین کو ترقی کے  کافی مواقع فراہم کر رہی ہے۔
العبدی نے کہا کہ لوگوں کو  زیادہ سے زیادہ کی ترغیب دلانا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا میرا خواب ہے۔
 

شیئر: