Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غلامی کے دور کی نشانی: لندن انتظامیہ کا دو مجسمے ہٹانے کا فیصلہ

دونوں سیاستدانوں کے مجسموں کو اب کہیں اور نصب کیا جائے گا (فوٹو: گیٹی امیجز)
لندن کی مقامی انتظامیہ نے غلاموں کی تجارت سے تعلق رکھنے والے دو سیاست دانوں کے مجسمے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سٹی آف لندن کارپوریشن میں 17ویں اور 18ویں صدی کی ان شخصیات کے مجسموں کو ہٹانے کے لیے جمعرات کو ووٹنگ ہوئی۔
ان دونوں نے غلاموں کی تجارت سے دولت کمائی تھی۔
ولیم بیک فورڈ لندن کے سابق میئر تھے اور انہوں نے اپنی دولت جمیکا میں وسیع پیمانے پر کاشت کاری سے کمائی تھی، جہاں غلام مزدوری کرتے تھے جبکہ جان کاس رکن پارلیمنٹ اور رائل افریقہ کمپنی میں بڑے عہدے پر تھے اور غلاموں کی منتقلی میں سہولت کار تھے۔ دونوں کے مجسموں کو اب کہیں اور نصب کیا جائے گا۔
لندن کارپوریشن نے گذشتہ برس ستمبرمیں نہتے سیاہ فام جارج فلائیڈ کی امریکی پولیس کے ہاتھوں تشدد سے ہلاکت کے بعد برطانیہ اور یورپ میں ہونے والے ’بلیک لائیوز میٹر‘ مظاہروں کو دیکھتے ہوئے غلامی کے دور سے متعلقہ مجسموں کے حوالے سے عوامی مشاورت کا آغاز کیا تھا۔
نسل پرستوں کے خلاف ہونے والے ان مظاہروں، جن کا اختتام برسٹل کے غلام تاجر ایڈورڈ کولسٹن کے مجسمے کو گرانے کے بعد ہوا، نے برطانیہ میں نوآبادیاتی دور کی یادگاروں کو ختم کرنے کے ملک گیر مطالبے کو جنم دیا۔
یہ تحریک اس وقت شدید تنقید کی زد میں آئی جب مظاہرین نے برطانیہ کے جنگی ہیرو اور وزیراعظم ونسٹن چرچل کے مجسمے کو نشانہ بنایا۔
اس ہفتے کے آغاز میں تاریخی مجسموں کی حفاظت کے لیے نئے قوانین لائے گئے ہیں، جن کے مطابق ان کو صرف ’نہایت غیرمعمولی حالات‘ میں ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔
اس قانون کے مطابق اگر مقامی انتظامیہ کسی یادگار کو ہٹانا چاہتی ہے اور نیشنل ہیرٹیج باڈی اس پر اعتراض کرتی ہے تو حتمی فیصلے کا اختیار کمیونٹیز کے وزیر رابرٹ جینرک کے پاس ہو گا۔

شیئر: