Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان: رومی کی جائے پیدائش کی دوبارہ تعمیر کا منصوبہ

'بحالی کے پروجیکٹ کے لیے درکار 70 لاکھ ڈالر افغان حکومت دے گی' (فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں حکام صوبہ بلخ میں موجود 13 ہویں صدی کے اسلامی تعلیم کے کمپلیکس کی دوبارہ تعمیر کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ سینٹر ایک زمانے میں دنیا کے عظیم شاعروں اور صوفیوں میں سے ایک جلال الدین رومی کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔
رومی بلخ کمپلکس میں 1207 میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ تعلیم حاصل کرنے کی ایک جگہ تھی جہاں ہزاروں شاگردوں کے لیے مسجد، خانقاہ اور مدرسہ ہوا کرتا تھا اور یہ رومی کے والد کا تھا۔
رومی کے والد، عالم دین بہاالدین ولاد افغانوں میں سلطان العلما کے نام سے جانے جاتے تھے۔
رومی کے خاندان کے 1210 کے قریب بلخ چھوڑنے کے چند برسوں بعد، صوبائی دارالحکومت مزار شریف کے شامل مغرب کے اس علاقے کو چنگیز خان کی منگول فوج نے شمال مشرق سے آکر تباہ کر دیا تھا۔
اس کے بعد بلخ کی ازسر نو تعمیر میں ایک صدی سے زائد کا عرصہ لگا لیکن یہ تعلیم گاہ کھنڈر کی صورت ہی میں رہی۔
2001 میں طالبان کا دور ختم ہوا تو بیرون ملک سے امداد افغانستان پہنچنا شروع ہوئی۔ اس وقت افغان حکومت پر ولاد کے سینٹر کی تعمیر نو نہ کرنے پر تنقید ہوئی۔
تاہم اب بحالی کا کام رواں سال موسم تھوڑا گرم ہونے کے بعد بہار میں متوقع ہے۔
افغانستان میں وزیر اطلاعات شیوائے شارق نے گذشتہ ہفتے عرب نیوز کو بتایا کہ 'اس (سینٹر) کو کلاسک اور روایتی انداز میں دوبار تعمیر کیا جائے گا۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'خانقاہ کی بحالی کے ساتھ ہم لوگوں کو ایک گمشدہ خزانے سے متعارف کرانے کی امید کرتے ہیں۔ خانقاہ کے ساتھ، ایک عجائب گھر ہوگا، ساما رقص کے لیے سٹوڈیو، ثقافتی کمرہ، باغ اور کتب خانہ بھی ہوگا۔'

'خانقاہ کے ساتھ ایک عجائب گھر، ثقافتی کمرہ، باغ اور کتب خانہ بھی ہوگا' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ساما رقص کو رومی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ رومی کے پیروکار یہ گول گھومنے والا رقص بندگی اور عقیدت کے طور پر کرتے ہیں۔
رومی نے اپنی زندگی کا کافی حصہ ترکی کے اناطولیہ میں گزارا اور انہیں ترکی ہی کے شہر کونیا میں دفنایا گیا، جہاں ان کا مزار زیارت کی جگہ بن گیا۔ اس وجہ سے برسوں پہلے ترکی نے ان کے والد کے سینٹر کی ازسر نو تعمیر میں مدد کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ لیکن وہ وعدہ اب تک پورا نہیں کیا گیا ہے۔
صوبہ بلخ میں تعلیم اور ثقافتی سینٹر کے سربراہ مطیع اللہ کریمی کا کہنا ہے کہ 'بحالی کے پروجیکٹ کے لیے درکار 70 لاکھ ڈالر افغان حکومت کی جانب سے دیے جائیں گے۔'
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'خانقاہ کی باقیات میں صرف مٹی کے گنبد کا بڑا حصہ اور چار چھوٹے والے بچ گئے ہیں۔ خانقاہ کو بحال کرنا ثقافتی ورثے اور سیکھنے کے عمل کی حفاطت کے لیے اہم ہے اور یہ سیاحت کی شعبے کے لیے بھی اچھا ہے۔'

شیئر: