Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ الیکشن: عثمان بزدار ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھاری ثابت ہوں گے؟

سینیٹ الیکشن کی دوڑ شروع ہوچکی ہے تو لیگی قلعے میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہیں (فوٹو بشکریہ: وزیراعلیٰ عثمان بزدار ٹوئٹر)
پاکستان کی سیاست میں جوڑ توڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برسراقتدار پارٹیاں اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کو اپنے ساتھ ملاتی رہتی ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں پر نظر دوڑائی جائے تو 2002 میں مسلم لیگ ق کا وجود ہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ڈھیر پر رکھا گیا۔
وقت کا دھارا بدلا تو مسلم لیگ ن 2008 کے انتخابات میں پنجاب اور پیپلزپارٹی وفاق میں برسر اقتدار آئی۔ اس وقت سب سے زیادہ جوڑ توڑ پنجاب میں دیکھنے میں آیا اور ق لیگ کے رکن پنجاب اسمبلی عطااللہ مانیکا نے فارورڈ بلاک بنایا اور 26 اراکین کے ہمراہ اس وقت کے وزیراعلی شہباز شریف سے جا کر ان کے گھر رائیونڈ میں پہلی ملاقات کی۔
یہ سلسلہ اس ملاقات پر نہیں رکا بلکہ دھیرے دھیرے ق لیگ پنجاب میں کمزور ہوتی چلی گئی اور شہباز شریف کے دس سالہ دور حکومت کے بعد اب ق لیگ پنجاب اسمبلی میں دس نشستوں کے ساتھ براجمان ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ چوہدری پرویز الہی نے اپنی سیاست کے بل بوتے پر ان دس سیٹوں کے ساتھ بھی پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ حاصل کیا اور ایک دفعہ پھر ق لیگ نے اپنے وجود کو برقرار رکھا۔

2020 میں مسلم لیگ ن کے پانچ اراکین صوبائی اسمبلی نے وزیراعلی عثمان بزدار سے ملاقات کی (فوٹوبشکریہ: پنجاب گورنمنٹ)

اب جبکہ 2018 کے عام انتخابات کو تقریبا 30 مہینے ہو چکے ہیں اور تحریک انصاف کی وفاق اور پنجاب میں حکومت ہے اور سردار عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلی ہیں، ایسے میں روایتی سیاست کو مدنظر رکھا جائے تو برسراقتدار پارٹی کا ن لیگ کے اندر دراڑ ڈالنا ایک بھر پور سیاسی چال ہی تصور ہو گا۔ 
ایسا ہوتا دکھائی بھی دیا جب 2020 میں مسلم لیگ ن کے پانچ اراکین صوبائی اسمبلی نے وزیراعلی عثمان بزدار سے ملاقات کی۔
ان ملاقات کرنے والوں میں نشاط ڈاہا، ملک اشرف، جلیل شرقپوری، اشرف انصاری، مولانا غیاث الدین اور فیصل نیازی شامل تھے لیکن وزیر اعلی بزدار کے پہلے دو سالوں میں اس سے زیادہ ان ناموں میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ 
اب جبکہ سینیٹ الیکشن کی دوڑ شروع ہوچکی ہے تو لیگی قلعے میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہیں۔
حال ہی میں دو اور لیگی اراکین نے کھل کر اپنی وفاداریاں بدل لی ہیں جن میں ایک اظہر چانڈیا اور دوسرے کاشف محمود ہیں لیکن اب کی بار پیپلز پارٹی کا ایک ایم پی اے رئیس نبیل بھی عثمان بزدار کی زنبیل میں آ چکا ہے۔ 

حال ہی میں دو اور لیگی اراکین نے کھل کر اپنی وفاداریاں بدل لی ہیں جن میں ایک اظہر چانڈیا اور دوسرے کاشف محمود ہیں (فوٹو: پنجاب گورنمنٹ)

تو کیا سمجھا جائے کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار شہباز شریف کی طرح اپنے سیاسی مخالفین پر ویسے ہی بھاری پڑیں گے؟ اس کا جواب معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ یہ دیتے ہیں کہ ’یہ موازنہ درست نہیں، میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کیونکہ پارٹیاں ٹوٹنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ جب ق لیگ بکھری تھی تو وہ حد بندیاں 2008 کے الیکشن کے بعد شروع ہوگئیں تھیں اور دیوار پہ لکھا نظر آ رہا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور ویسا ہی ہوا۔‘
سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک چال سیاسی جماعتوں کے لیڈر چل رہے ہوتے ہیں تو ایک چال اپنے اپنے علاقوں کے الیکٹ ایبلز چل رہے ہوتے ہیں۔ ن لیگ کو جو ڈینٹ پڑنا تھا وہ 2018 کے الیکشن سے پہلے پڑ چکا، جب جنوبی پنجاب کے ارکین ان کی چھتری سے نکل گئے۔ اس کے بعد پوسٹ الیکشن حکومت بننے کے عمل میں بھی ایک صورت حال تھی جس میں یہ دیکھا جا رہا تھا کہ ن لیگ کس حد تک اپنے آپ کو بچا پائے گی۔ انہوں نے بچا لیا۔‘
 معروف تجزیہ کار نے مزید کہا کہ ’میں ڈھائی سالوں میں پانچ چھ اراکین کے ن لیگ چھوڑنے کو کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں سمجھتا۔ جب آپ کی طاقت محض سیاسی اقتدار نہ ہو، اس کے علاوہ اور بھی قوتیں آپ کے شانہ بشانہ ہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ عثمان بزدار وہ مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے ہیں یا آئندہ حاصل کر پائیں گے۔ ہو سکتا ہے ایک آدھ بندہ اور ن لیگ کا ساتھ چھوڑ دے اس سے زیادہ کا یہ معاملہ نہیں ہے۔‘

شہباز شریف کے دس سالہ دور حکومت کے بعد اب ق لیگ پنجاب اسمبلی میں دس نشستوں کے ساتھ براجمان ہے (فوٹو: روئٹرز)

اس سیاسی جوڑ توڑ کو عرف عام میں ’ہارس ٹریڈنگ‘ کہتے ہیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق ایک جماعت کے ٹکٹ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد آپ کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتے۔
اس کے لیے آپ کو استعفی دے کر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینا ہوتا ہے تاہم وفاداریاں بدلنے والے نہ تو استعفی دیتے ہیں اور نہ پارٹی کا نام چھوڑتے ہیں اور ’فلاں جماعت کے منحرف اراکین‘ کی ٹیگ لائن کے ساتھ اگلے انتخابات تک وقت گزاری کرتے ہیں۔
 مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں بہرحال یہ چند ووٹ بھی اہم تصور کیے جائیں گے۔

شیئر: