یونیورسٹی آف لاہور میں عام دنوں کے برعکس فضا میں ایک الگ ہی رونق تھی۔ ہر طرف افغان لباس کی چمک اور کابلی پلاؤ، بولانی اور اشک جیسے کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔
یہ لاہور میں زیرِتعلیم افغانستان سے آئے طلبہ کی جانب سے اپنی ثقافت کی نمائش کا منفرد طریقہ کار تھا جہاں وہ اپنی روایات، ثقافت، رنگوں اور اقدار کو لے کر دنیا سے مخاطب تھے۔
یہ نمائش درحقیقت ایک تہذیبی میلہ تھا جہاں پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے طلبہ، خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان، پہلی بار افغان ثقافت کو اس کے بھرپور رنگوں میں دیکھ رہے تھے۔
افغان، ہزارہ اور تاجک لباس پہنے طلبہ نے نہ صرف اپنے وطن کی خوبصورتی کو اجاگر کیا بلکہ اپنی تاریخ بھی مقامی طلبہ کو بتائی۔
مزید پڑھیں
-
بائیک ایمبولینس، راہ چلتے فرسٹ ایڈ دینے والے پیرامیڈکNode ID: 888519
یونیورسٹی آف لاہور ایک نجی تعلیمی ادارہ ہے جہاں کئی ممالک سے آئے طلبہ سکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ افغانستان کے 100 سے زائد طلبہ یہاں زیرِ تعلیم ہیں جنہوں نے سنہ 2021 میں ’افغان انیشیٹیو سوسائٹی‘ کا قیام عمل میں لایا۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے تمام طلبہ اس سوسائٹی کے تحت ایک ساتھ جڑے ہیں جو غیرنصابی سرگرمیوں کے ذریعے اپنی ثقافت اور تاریخی کو اجاگر کرتے ہیں۔
19 مئی بروز پیر کو اس سوسائٹی کے زیرِ اہتمام افغانستان کی ثقافت اور دیگر پہلوؤں کی نمائش رکھی گئی تھی۔
سوسائٹی کے صدر صفی اللہ احمدزئی جن کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیا سے ہے، انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سوسائٹی سنہ 2021 میں قائم ہوئی تھی تاکہ افغان طلبہ کو تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا پیغام امن، بھائی چارہ اور محبت ہو۔ ہم پاکستان میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی سرگرمیاں آزادی سے منعقد کرتے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔‘
’افغانستان صرف جنگ یا طالبان کا نام نہیں‘
صائمہ ہزارہ کا بنیادی تعلق افغانستان کے صوبہ ارزگان سے ہے تاہم وہ کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف لاہور میں بی ایس سائیکالوجی کی طالبہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری ثقافت کو جانیں، ہماری شناخت کو سمجھیں۔ افغانستان صرف جنگ یا طالبان کا نام نہیں بلکہ وہاں خوبصورت ثقافتی رنگ ہیں، رقص ہے، مہمان نوازی ہے اور خواتین کے پاس خواب ہیں۔‘
افغانستان کے ان طلبہ نے یونیورسٹی میں سٹالز لگائے تھے جہاں مشہور کابلی پلاؤ اور دیگر پکوان موجود تھے۔ ایک طرف ’بولانی‘ دیکھ کر لوگوں کے منہ میں پانی آ رہا تھا تو دوسری طرف ’اشک‘ کے سٹال پر قطاریں لگی تھیں۔ خشک میوہ جات کو خوبصورتی سے سجا کر پیش کیا گیا تھا جبکہ سٹال پر ہر آنے والوں کو پلیٹوں میں یہ روایتی کھانے دیے جا رہے تھے۔
ان افغان کھانوں کے حوالے سے سے صائمہ ہزارہ نے بتایا کہ ’آج کے دن کے لیے ہم نے خصوصی طور پر افغانستان کے روایتی کھانے بنائے ہیں۔ ہم نے اشک، بولانی، اور کابلی پلاؤ خود بنایا۔ یہاں کے لوگ ہمارے کھانوں میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ پنجاب میں افغانی کھانے کم بنتے ہیں اس لیے لوگ زیادہ تر ترکیب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق یونیورسٹی میں تقریباً 100 افغان طلبہ زیرِتعلیم ہیں اور سب نے مل کر اس تقریب کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

سٹالز پر جہاں افغانستان کے جھنڈے رکھے گئے تھے وہیں افغانستان کی تاریخی شخصیات کی تصاویر بھی تھیں، اور ثقافتی ملبوسات بھی آویزاں تھے۔
صائمہ ہزارہ نے اپنے سٹال سے متعلق کہا کہ ’افغانستان میں مختلف ثقافتیں ہیں، جیسے پشتون، ہزارہ اور تاجک ہر کوئی اپنی منفرد روایات کے ساتھ موجود ہے۔ ہم نے یہاں کوشش کی ہے کہ ان تمام ثقافتوں کی نمائندگی ہو۔‘
شوکت اللہ پکتیا سے تعلق رکھتے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں افغان انیشیٹیو سوسائٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’یونیورسٹی آف لاہور میں افغانستان کے تقریباً ہر قبیلے اور صوبے سے طلبہ موجود ہیں۔ بدخشاں، ہزارہ، تاجک اور پشتون طلبہ یہاں آ کر ایک نئے پاکستان کا چہرہ دیکھتے ہیں، وہ چہرہ جو محبت کرتا ہے، جگہ دیتا ہے، اور سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں معاشی اور ثقافتی طور پر پاکستان نے بہت سپورٹ دی ہے۔ پاکستان نے ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں کروایا کہ ہم اپنے گھر سے دور ہیں۔ کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن عوام کے مابین جو محبت ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ہم تو پاکستان کو اپنا گھر مانتے ہیں۔‘
’جو خواتین پاکستان آتی ہیں، ان کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے‘
صائمہ نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندیوں سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کو تعلیم یا آزادی کا حق نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے افغانستان میں خواتین کی حالت زار کے حوالے سے کہا کہ ’خواتین کو وہاں زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ جو خواتین پاکستان آتی ہیں، ان کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے۔ انہیں سکالرشپ، ہاسٹل میں مفت رہائش، سکیورٹی، اور میس کی سہولیات ملتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مقامی لوگ بین الاقوامی طلبہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھتے ہیں۔ یہاں مقامی لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ہم اپنے وطن سے دور یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ ہمارے پاس بھی ایک موقع ہے کہ اگر ہم اب کھڑے نہ ہوئے تو ہمارے بچوں کو بعد میں قربانیاں دینی پڑیں گی۔ آج قربانیاں دے کر ہم یقینی بنا سکتے ہیں کہ ان کی زندگی افغانستان میں بہتر ہو۔‘
سٹالز کے علاوہ افغانستان کے ان طلبہ نے روایتی رقص بھی پیش کیا۔ ایک خاص زاویے سے قدموں کی تیز جنبش، ہاتھوں کو خاص زاویے سے لہرانا اور موسیقی کی تال پر رقص سے طلبہ خوب محظوظ ہوئے۔ اس دوران افغانستان کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے شاعری بھی پیش کی۔
’کسی بھی مسئلے میں پنجابی دوست سب سے پہلے ساتھ ہوتے ہیں‘
عبدالرحمن نظامی افغانستان کے صوبہ بادغیس سے تعلق رکھتے ہیں اور یونیورسٹی آف لاہور میں بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس پورے دن کو ایک ایسے انداز میں ڈیزائن کیا ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ چیزوں کی نمائش ہو سکے۔ یہاں صرف پشتو ہی نہیں بلکہ فارسی زبان میں شاعری پیش کی گئی اور ہر طرح کا ثقافتی رقص بھی پیش کیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’طلبہ نے تقریروں میں اپنے خدشات اور پاکستان میں ان کے ساتھ رویے سے متعلق بات بھی کی۔ یہاں کے لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں۔ ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم اپنے ملک سے دور ہیں۔‘
عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ ’ان کی زیادہ تر دوستیاں پنجابی طلبہ کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں جب بھی ہمیں کسی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا ہے تو سب سے پہلے ہمارے پنجابی دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔‘