Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہندو طلبہ کو ہولی منانے میں مشکلات کا سامنا کیوں؟

دنیا بھر میں ہندو برادری موسم سرما کے اختتام اور بہار کی شروعات میں ہولی مناتی ہے (فوٹو: احسان اللہ)
پاکستان کی بڑی جامعات میں شمار ہونے والی پنجاب یونیورسٹی حالیہ دنوں میں کئی مسائل کا شکار رہی ہے۔
پہلے غیرقانونی طلبہ کو ہاسٹلز سے بے دخل کرنے کی وجہ سے احتجاج جاری رہا جبکہ اب ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے طلبہ پریشان ہیں کہ انہیں ہولی منانے کے لیے اجازت چاہیے لیکن انتظامیہ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
ہندو طلبہ کا الزام ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ان کے تہوار کو منانے کی اجازت دینے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہی ہے جبکہ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ کسی کو ہولی منانے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ امتحانات اور موسم کی شدت اور دیگر وجوہات کی بنا پر مناسب وقت کا انتظار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
دنیا بھر میں ہندو برادری موسم سرما کے اختتام اور بہار کی شروعات میں ہولی مناتی ہے۔
رواں سال مارچ کی 13 اور 14 تاریخ کو ہولی منائی گئی تاہم پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہندو طلبہ نے رمضان کے احترام میں ہولی نہیں منائی۔
اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ہندو طالب علم کیت کمار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے اس وقت ڈائریکٹر سٹوڈنٹ افیئرز (ڈی ایس اے) کو بتایا کہ ہم رمضان کے دوران ہولی نہیں منائیں گے کیونکہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر رمضان میں ہولی منا کر کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔ اسی لیے ڈی ایس اے نے ہمیں بعد میں اجازت لے کر ہولی منانے کی ہدایت کی۔‘
 تاہم ان کا دعوٰی ہے کہ حالیہ دنوں میں جب انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت طلب کی تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے بقول ’جب ہم 8 سے 10 دن پہلے اجازت لینے پہنچے تو ہماری درخواست کمیٹی کو فارورڈ کی گئی اور ہمیں ڈی جی کے پاس جانے کا کہا گیا۔ ڈی جی نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کیا بلکہ ہماری درخواست پھینک دی اور ہولی منانے کی صورت میں تادیبی کارروائی کی دھمکی دی۔‘
ہولی رنگوں اور خوشیوں کا تہوار مانا جاتا ہے جو ہندو برادری کا ایک اہم مذہبی اور ثقافتی تہوار ہے۔ کیت کمار کے مطابق پنجاب یونیورسٹی میں 80 ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے طلبا زیر تعلیم ہیں اور ہولی یا دیوالی جیسے تہواروں کے دوران چھٹیاں نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے تہوار منانے اور گھر جانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

کیت کمار نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہندو طلبا کے مذہبی تہواروں کو دبانے کی کوشش کرتی ہے (فوٹو: احسان اللہ)

وہ اپنا شکوہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’ہولی پنجاب میں خاص طور پر ملتان سے شروع ہوئی، لیکن آج ہمیں اسی پنجاب کی سرزمین پر ہولی منانے کی اجازت نہ دینا غیر منصفانہ عمل ہے۔ دوسرے مذہبی تہوار جیسے عید بڑے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں لیکن ہمارے تہواروں میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔‘
پنجاب یونیورسٹی کی سندھی زبان کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اشوک کمار کو ہندو برادری کے ہولی سے متعلق امور کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہولی کے تہوار کے حوالے سے ممکنہ خطرات اور ذمہ داریوں کو لے کر فکر مند ہے۔ ان کے مطابق ’گرمی کا موسم، امتحانات، اور باہر سے لوگوں کے داخلے کی پابندیوں کی وجہ سے ہم فکر مند ہیں۔ حال ہی میں غیر قانونی طلبا کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے جس کے بعد انتظامیہ سکیورٹی کے معاملات کو لے کر فکر مند رہتی ہے اور خاص طور پر انڈور تقریبات کے لیے باقاعدہ وقت اور ایس او پیز دیکھ کر فیصلے کر رہی ہے۔‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ ہولی رنگوں کے تہوار کی وجہ سے دیواروں پر داغ رہ جاتے ہیں اور صفائی کے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے متعدد طلبا غیرقانونی طور پر مقیم طلبا کی بے دخلی، فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے خلاف دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جبکہ حال ہی میں یونیورسٹی انتظامیہ نے 5 جون تا 29 اگست موسم گرما کی چھٹیوں کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر اشوک کمار اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’ابھی یونیورسٹی کو کئی مسائل کا سامنا ہے جس کے لیے انتظامیہ کام کر رہی ہے اور چھٹیوں کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ ایک یا دو سال قبل ہولی مختلف انداز میں منائی گئی تھی جس سے کچھ تنازعات کھڑے ہوئے۔ اس بار انتظامیہ ان طلبا کے لیے بہتر اور مناسب انتخاب کا سوچ رہی ہے۔‘

کیت کمار نے کہا کہ ’یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنا تہوار رنگوں اور خوشی کے ساتھ منائیں۔‘ (فوٹو: احسان اللہ)

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک گروپ کو ہولی منانے کی اجازت دینے سے دیگر طلبا گروہوں کے لیے بھی اسی طرح کی اجازت مانگنے کا راستہ کھل سکتا ہے جس سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان کے بقول ’آج بھی ہماری ایک میٹنگ طے ہے جس کے بعد ہم فیصلہ کریں گے کہ ہولی کے انتظامات کب اور کیسے ممکن ہوں گے۔‘
کیت کمار نے انتظامیہ پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ہندو طلبا کے مذہبی تہواروں کو دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے 2023 کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ہم نے یونیورسٹی میں کھل کر ہولی منائی لیکن چند طلبہ اور تنظیموں نے ہم پر ڈنڈے برسائے۔ پنجاب میں ہمیں اکثر انڈیا سے آئے ہوئے سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ سب یہ بھول جاتے ہیان کہ پاکستان میں بھی لاکھوں ہندو آباد ہیں۔‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے 4 سے 5 ہندو طلبا نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔
’انہیں اسلامیات اور قرآن پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کے عقیدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ طلبا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اور انہیں ڈراپ کر دیا گیا۔‘
کیت کمار نے بتایا کہ وہ گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہولی منانا چاہتے ہیں۔ ’یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنا تہوار رنگوں اور خوشی کے ساتھ منائیں۔ اگر یونیورسٹی اجازت نہیں دیتی تو ہم احتجاج کریں گے۔ ہم یونیورسٹی کے اندر پر امن احتجاج سے شروع کریں گے اور اگر بات نہ بنی تو پریس کلب اور پنجاب اسمبلی تک جائیں گے۔ یہ صرف ہولی کا مسئلہ نہیں ہے ہمیں مزید بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔‘

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا کہ ’انتظامیہ نے براہ راست کسی کو ہولی منانے سے منع نہیں کیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یونیورسٹی نے ہولی منانے پر تادیبی کارروائی کی تو اس سے پاکستان کا عالمی امیج متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ انڈین میڈیا اسے منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ’ہم ہولی اس طرح منانا چاہتے ہیں کہ نہ یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان ہو اور نہ ہی ملک کی۔ ہمارے لیے ملک سب سے بڑھ کر ہے۔‘
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انتظامیہ نے براہ راست کسی کو ہولی منانے سے منع نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہندو طلبا خود چاہتے ہیں کہ امتحانات اور موسم کی شدت کی وجہ سے ہولی کسی بہتر وقت پر منائی جائے۔ انتظامیہ کا بھی یہی موقف ہے۔ کچھ شرپسند طلبہ جو ہندو برادری سے نہیں ہیں، جان بوجھ کر پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔‘
 ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے واضح کیا کہ یونیورسٹی ہندو طلبا کے حقوق کا احترام کرتی ہے اور ان کے تہوار منانے کے لیے مناسب انتظامات پر غور کر رہی ہے۔

 

 

شیئر: