Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے پاس کون سی آپشنز باقی ہیں؟

سینیٹ انتخابات رواں سال11 فروری کے بعد متوقع ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے وفاقی حکومت نے صدارتی آرڈینینس جاری کیا تو اپوزیشن جماعتیں اس کی مخالفت میں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ 
حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ پر کروانے کے لیے سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس کے بعد اکثریت نہ ہونے کے باوجود 26 ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
اب الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر مبنی صدارتی آرڈینینس پیش کیا ہے جس کے تحت سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ پر ہی ہوں گے۔ 

حکومت اور اپوزیشن کے پاس کون سی آپشنز باقی ہیں؟

ماہرین کے مطابق حکومت نے سینیٹ کے حوالے سے اپنے تمام آپشنز استعمال کر کے انتخابات اوپن بیلٹ پر کرانے کی راہ ہموار کر لی ہے۔
تاہم اپوزیشن کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کر کے صدارتی آرڈینینس کو چیلنج کر سکتی ہے، اور اس آرڈینینس کو معطل یا کالعدم قرار دینے کی کوشش کر سکتی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ ’حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لینا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ موجودہ آرڈینینس بھی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہی مشروط ہے، اگر سپریم کورٹ رائے دیتی ہے کہ سینیٹ انتخابات الیکشن ایکٹ کے تحت ہوں گے تو پھر اس آرڈینینس کا اطلاق ہوگا، اور اگر سپریم کورٹ نے رائے دی کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں تو پھر آرڈینینس از خود تحلیل ہو جائے گا۔
سابق سیکرٹری سینیٹ افتخار اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ’اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی کیس نہیں بلکہ ایک ریفرنس زیر سماعت ہے جس کی رائے پر حکومت یا پارلیمان عمل کرنے کی پابند نہیں ہوگی۔ حکومت نے اس حوالے سے اپنے سارے آپشنز استعمال کر کے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس لیے اب میری رائے میں الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔‘ 

وزیراعظم نے سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کرنے کا کہا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

سابق ایڈیشنل سیکرٹری قومی اسمبلی طاہر حنفی کے مطابق ’اپوزیشن کے پاس سپریم کورٹ جانے کے علاوہ کوئی ریمیڈی نہیں ہے۔ اس وقت انھیں بیٹھ کر آئینی اور قانونی معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے سنجیدہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کے خلاف کارروائی ہو اور چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کے انتخابات کو بھی اوپن بیلٹ کے زریعے کرانے جیسے معاملات بھی طے کر لیے جائیں۔‘ 

کیا آئینی ترمیم پیش کرنے کے بعد آرڈینیس کا اجرا درست ہے؟ 

اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرائیں گے تو انھوں نے اپنا سیاسی وعدہ پورا کرنے کے لیے ایوان میں آئینی ترمیم پیش کر دی۔ اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے وہ آئینی ترمیم نہیں لا سکے تو وہ سیاسی طور پر کامیاب ہوجاتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔‘
سابق سیکرٹری سینیٹ افتخار اللہ بابر نے کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم اور صدارتی آرڈینیس دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ آئینی ترمیم کا مقصد نہ صرف اوپن بیلیٹ  کے ذریعے سینیٹ انتخابات ہے بلکہ الیکشن لڑنے کے لیے دوہری شہریت کی شرط کا خاتمہ بھی ہے، جو صدارتی آرڈینینس سے ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ جبکہ صدارتی آرڈینیس کے ذریعے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے کہ اگر آئینی ترمیم مسترد ہو بھی جائے تو بھی سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے ہی ہوں۔‘ 
طاہر حنفی کا کہنا ہے کہ ’آئینی ترمیم اس وقت ایک تجویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی تجویز صدر مملکت کو آرڈینیس جاری کرنے کے اپنے اختیار سے نہیں روک سکتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ سے اپوزیشن کو ریلیف ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔‘

صدر مملکت نے انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے آرڈیننس جاری کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

کیا ووٹ بکنے کا خدشہ درست ہے؟ 

وزیراعظم عمران خان بارہا یہ کہتے آئے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے ذریعے ووٹ خریدے جاتے ہیں اس لیے اس کا راستہ روکنا ضروری ہے۔ ان کا یہ خدشہ اس دفعہ اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ فاٹا کے سینیٹر جن کے بارے میں ہر سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے بے دریغ استعمال کی خبریں سامنے آتی ہیں، اب کی بار ان کا حلقہ انتخاب خیبرپختونخوا اسمبلی ہے جہاں وہ تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتے ہیں۔ 
کنور دلشاد نے اس تاثر کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کا خدشہ درست ہے کہ پارٹی کے لوگ ان سے بے وفائی کریں گے۔ نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی گیم کھیلی جائے گی۔‘ 
اس حوالے سے افتخار اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ’صرف تحریک انصاف ہی نہیں مسلم لیگ ن اور پیلیز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو بھی یقین ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ان کے ارکان اپنے ووٹ بیچتے ہیں۔ اس لیے اصولی طور پر تو سب اس حق میں ہیں کہ اوپن بیلٹ ہو لیکن اس وقت محض سیاسی تنازعات کی وجہ سے اتفاق رائے ممکن نہیں ہو پا رہا۔‘

شیئر: