Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹکٹ چِھننے کے بعد عبدالقادر آزاد امیدوار، پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ

65 رکنی بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں سینیٹ کی جنرل نشست جیتنے کے لیے کم سے کم آٹھ ووٹوں کی ضرورت ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹ واپس لیے جانے کے بعد عبدالقادر نے بلوچستان سے سینیٹ انتخابات آزاد حیثیت سے لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ عبدالقادر کی تائید و تجویز بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین نے کی۔ 
پیر کو بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے بیٹے سردار خان رند نے بھی سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
بلوچستان سے ایوان بالا کی سات جنرل نشستوں سمیت مجموعی طور پر بارہ نشستوں پر تین مارچ کو انتخاب ہوگا۔ حکمران جماعت تحریک انصاف نے بلوچستان سے جنرل نشست کے لیے پہلے اسلام آباد کے رہائشی اور تعمیراتی شعبے کے ٹھیکیدار عبدالقادر کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تھا جس پر پی ٹی آئی بلوچستان میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ 

 

سینیٹ کے لیے نامزدگی کے بعد بلوچستان میں پی ٹی آئی کے چاروں ریجنز کے صدور نے عبدالقادر کو شہباز شریف کا کاروباری شراکت دار قرار دیا تھا۔
پی ٹی آئی بلوچستان کی جانب سے تحفظات کے اظہار کے بعد وزیراعظم عمران خان نے عبدالقادر سے سینیٹ کا ٹکٹ واپس لے لیا تھا اور ان کی جگہ پی ٹی آئی کے کوئٹہ ریجن کے سینیئر نائب صدر سید ظہور آغا کو امیدوار نامزد کیا۔
عبدالقادر نے ردعمل میں کہا تھا کہ ’انہیں وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ قبول ہے‘ تاہم  پیر کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے آخری دن عبدالقادر نے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین سکندر عمرانی اور لیلیٰ ترین کی تائید و تجویز سے آزاد حیثیت سے اپنے نئے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن کے کوئٹہ میں واقع دفتر میں جمع کرائے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور سینیٹ کے لیے امیدوار منظور احمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’انہیں علم نہیں کہ ان کی جماعت کے اراکین نے آزاد امیدوار کی تائید و تجویز کی ہے۔ یہ معاملہ پارٹی کے اندر سامنے آیا تو بی اے پی کے صدر وزیراعلیٰ جام کمال خان فیصلہ کریں گے۔‘
میڈیا کے نمائندوں کی کوشش کے باوجود عبدالقادر نے سوالات کے جوابات نہیں دیے اور غیر رسمی طور پر گفتگو میں صرف اتنا کہا کہ 'جو الزامات لگا رہے ہیں انہیں خوش ہونے دو۔'

عبدالقادر نے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی تائید و تجویز سے آزاد حیثیت سے میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے (فوٹو: اردو نیوز)

اسلام آباد میں مقیم عبدالقادر کاروباری شخصیت اور تعمیراتی شعبے کے بڑے ٹھیکیدار ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ان کی جائے پیدائش کوئٹہ ہے اور انہوں نے تعلیم بھی کوئٹہ سے حاصل کی اور کاروبار کا آغاز بھی بلوچستان سے کیا۔‘
عبدالقادر نے بلوچستان سے سینیٹ کے لیے ٹکٹ ملنے سے صرف ایک روز قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
قبل ازیں ان کی سیاسی وابستگی بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے رہی ہے۔ وہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں بھی بلوچستان سے آزاد امیدوار تھے۔
انہیں مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان صوبائی اسمبلی (جنہوں نے بعد میں بی اے پی کی بنیاد رکھی) کی حمایت حاصل تھی، تاہم کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر وہ مطلوبہ حمایت کے باوجود سینیٹر نہ بن سکے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور وفاقی وزیر فواد چوہدری اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیئر رہنما سرفراز بگٹی نے عبدالقادر کو بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کا مشترکہ امیدوار قرار دیا تھا۔
تاہم اب عبدالقادر کے آزاد حیثیت سے بطور امیدوار سامنے آنے کے بعد خود بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ 

بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر یار محمد رند کے بیٹے آزاد حیثیت سے سینیٹ کا الیکشن لڑیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے بیٹے سردارخان رند نے بھی آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق ’سردار یار محمد رند اپنے بیٹے کو سینیٹر بنانا چاہتے تھے تاہم پارٹی نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔ سات صوبائی اراکین اسمبلی کے ساتھ پی ٹی آئی بلوچستان سے صرف ایک سینیٹ نشست جیت سکتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ ان کے ووٹ تقسیم نہ ہوں، لیکن موجودہ صورت حال میں ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔‘
جلال نورزئی کے بقول عبدالقادر کو تحریک انصاف کے کچھ اراکین کی اب بھی حمایت حاصل ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو اراکین نے ان کی تائید و تجویز کی ہے اس کا مطلب ہے وہ بی اے پی کے مزید اراکین کی حمایت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
65 رکنی بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں سینیٹ کی سات میں سے ہر جنرل نشست جیتنے کے لیے کم سے کم آٹھ ووٹوں کی ضرورت ہے۔ نو ووٹوں والا یقینی طور پر جیت جائے گا جبکہ اس سے کم ووٹوں کے حامل امیدوار کی جیت کا فیصلہ پوائنٹس پر ہوگا۔
بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی 24 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ پی ٹی آئی سات، اے این پی چار، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) تین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی دو اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک رکن ہے۔ یوں حکمران اتحاد کے پاس مجموعی طور پر 41 اراکین ہیں۔ مسلم لیگ ن کے واحد رکن نواب ثنا اللہ زہری پارٹی سے وابستگی ختم کر چکے ہیں اور حکمران اتحاد کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی دس دس نشستوں کی حامل ہیں۔ انہیں پشتونخوا (میپ) کے نصراللہ زیرے اور آزاد امیدوار نواب اسلم رئیسانی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ پشین سے بلوچستان اسمبلی کی خالی نشست پر منگل کو ہونے والے انتخاب میں بھی جے یو آئی کی کامیابی کا واضح امکان ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں