Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات: ’وزیراعظم کا فیصلہ تبدیل‘ عبدالقادر سے ٹکٹ واپس

پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر پارٹی کے دیرینہ رہنما ظہور آغا کو دے دیا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ایوان بالا کے  آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر بلوچستان متنازع حوالوں کے ساتھ خبروں میں ہے۔ امیدوار وں کے اعلان کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ 
پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں مقیم کاروباری شخصیت عبدالقادر کو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے فیصلے پر پی ٹی آئی کی صوبائی تنظیم نے سخت مخالفت کی۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر پارٹی کے دیرینہ رہنما ظہور آغا کو دے دیا۔
پشین سے تعلق رکھنے والے ظہور آغا پی ٹی آئی کے کوئٹہ ریجن کے سینیئر نائب صدر ہیں اور طویل عرصے سے پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔

 

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے سنیچر کو تصدیق کی کہ ’پی ٹی آئی نے عبدالقادر کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، کپتان ہمیشہ پارٹی کارکنوں کی آواز سنتا ہے۔

عبدالقادر کون ہیں؟

اسلام آباد میں مقیم عبدالقادر کاروباری شخصیت ہیں، اس سے قبل ان کی سیاسی وابستگی بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے رہی ہے۔ وہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے آزاد امیدوار تھے۔
انہیں مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان صوبائی اسمبلی (جنہوں نے بعد میں بی اے پی کی بنیاد رکھی) کی حمایت حاصل تھی، تاہم کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر وہ مطلوبہ حمایت کے باوجود سینیٹر نہ بن سکے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی تصدیق کی کہ ’عبدالقادر ٹکٹ ملنے سے ایک روز قبل ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عبدالقادر بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے اس لیے پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ دیا۔
تاہم کوئٹہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالقادر نے بتایا کہ 'میں پی ٹی آئی کا سخت گیر حامی رہا ہوں، 2012 سے پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا، دھرنے کے وقت بھی لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔

پی ٹی آئی بلوچستان کی تنظیم نے عبالقادر کو ٹکٹ دینے کی بھرپور مخالفت کی (فوٹو: فیس بک)

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئٹہ ان کی جائے پیدائش ہے اور انہوں نے بنیادی تعلیم اور قانون کی ڈگری بھی کوئٹہ اور بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔‘
’سارا کاروبار یہاں کیا اور صرف دس سال قبل اسلام آباد منتقل ہوا۔ اگرچہ میرا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزرتا ہے تاہم بلوچستان کے  لیے 127ارب روپے کے سڑکوں کے منصوبوں میں میرا کلیدی کردار رہا ہے۔
عبدالقادر نے الزام لگایا کہ ’پی ٹی آئی بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اپنے بیٹے کو سینیٹر بنوانا چاہتے تھے اس لیے ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس سے قبل سنیچر کی شام کو بلوچستان میں پی ٹی آئی کے چاروں صوبائی ریجنز کے صدور ڈاکٹر منیر بلوچ، حاجی نواب خان دمڑ، تاج محمد رند اور وارث دشتی نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں الزام لگایا کہ ’عبدالقادر ایک پیرا شوٹر، نیب زدہ
اور شہباز شریف کے کاروباری شراکت دار رہ چکے ہیں، ان کا کبھی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔‘
’بیس برسوں سے جدوجہد کرنے والی پارٹی کے دیرینہ کارکنوں اور پارٹی منشور کو نظر انداز کرکے عبدالقادر کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے ہی سینیٹ ٹکٹ دے دیا گیا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر منیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد میں بیٹھے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے بعض سینیئر رہنماؤں نے اس حوالے سے منفی کردار ادا کیا ہے۔‘
’ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ عبدالقادر کو وزیراعظم عمران خان سے ملانے اور ٹکٹ دلوانے کے بدلے ان رہنماؤں نے بھاری مراعات حاصل کی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’وزیراعظم عمران خان نے خود بھی کہا تھا کہ بلوچستان سے سینیٹ کے ایک ووٹ کی قیمت 50 سے 70 کروڑ روپے تک لگ رہی ہے۔ وزیراعظم کا اس مسئلے پر خود واضح مؤقف رہا ہے اس لیے انہیں ان الزامات پر کارروائی کرنی چاہیے۔
دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ جنرل نشستوں پر پارٹی کے جنرل سیکریٹری منظور کاکڑ، سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور پارٹی کے سینیئر رہنما خان آف قلات خاندان کے آغا عمر احمد زئی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔

بی اے پی نے چیئرمین سینیٹ کے بھائی اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے دو قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹ نہیں دیے (فوٹو: سینیٹ)

نوشکی سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت اورنگزیب جمالدینی، سابق صوبائی وزیر عبدالخالق اچکزئی کے علاوہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی اے این پی کی سابق سینیٹر ستارہ ایاز کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اورنگزیب جمالدینی کے علاوہ باقی تمام مرد امیدوار بلوچستان عوامی پارٹی کے معروف رہنما ہیں۔
دوسری جماعت اور دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والی خاتون کو سینیٹ ٹکٹ کیوں دیا گیا؟ اس سوال پر بی اے پی کے جنرل سیکریٹری منظور کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس میں کوئی بری بات نہیں ایسا تمام ہی جماعتیں کرتی ہیں۔‘
’پیپلز پارٹی نے بھی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون کو کراچی سے ٹکٹ دیا ہے۔ ستارہ ایاز کافی عرصے سے بی اے پی کا ساتھ دیتی رہی ہیں اس لیے انہیں ٹکٹ دیا گیا ہے۔
ستارہ ایاز 2015 میں خیبر پختونخوا سے اے این پی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئی تھیں۔ اے این پی نے اکتوبر 2019 میں پارٹی پالیسیوں کی خلاف ورزی، گروپ بندی اور تنظیم سے بغاوت کا الزام لگا کر انہیں پارٹی سے نکال دیا تھا۔

بی اے پی نے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی اے این پی کی سابق سینیٹر ستارہ ایاز کو بھی ٹکٹ دے دیا (فوٹو: ڈی پی اے)

بی اے پی نے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پارٹی کے بانی رہنما سعید احمد ہاشمی، منظور کاکڑ، سابق نگراں وزیر، گوادر چیمبر آف کامرس کے سابق صدر نوید کلمتی اور دکی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نواز ناصر کو ٹکٹ دیے ہیں۔
اقلیتی نشست پر وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اقلیتی امور دھنیش کمار اور خلیل جارج کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، جبکہ خواتین کی نشست پر سماجی کارکن شانیہ خان، ثمینہ ممتاز اور کاشفہ گچکی امیدوار ہوں گی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے بھائی اور وزیراعلیٰ جام کمال کے دو قریبی رشتہ داروں نے ٹکٹ کے لیے درخواستیں دی تھیں تاہم انہیں ٹکٹ نہیں دیے گئے۔
پشتون اضلاع اور نصیرآباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بی اے پی کے سینیئر رہنماؤں نے پارٹی اجلاسوں میں ٹکٹ کی تقسیم میں نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان سے مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا خلیل احمد بلیدی، کامران مرتضیٰ، آسیہ ناصر اور ہیمن داس کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں دس ارکان اسمبلی ہیں جن میں اکثریت کا تعلق پشتون اضلاع سے ہے۔

سینیٹ انتخابات کے لیے پولنگ تین مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہو گی (فوٹو: اے پی پی)

جے یو آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پارٹی کے صوبائی صدر سمیت ارکان اسمبلی کی اکثریت پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ٹکٹ غیر پشتون ارکان کو نہ دینے پر خوش نہیں اور انہوں نے اپنے تحفظات سے مرکزی قیادت کو آگاہ کردیا ہے۔‘ 
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے جنرل نشست پر پارٹی کے سابق نائب صدر اور قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ، لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سینیئر رہنما رونجھو اور حسین واڈیلہ جبکہ خواتین کی نشست پر خضدار سے تعلق رکھنے والی ادیبہ، پروفیسر طاہرہ احساس جتک ،شمائل اسماعیل جبکہ اقلیتی نشست پر سنیل کمار کو ٹکٹ دیا ہے۔ ساجد ترین ایڈووکیٹ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر بھی امیدوار ہوں گے۔
یاد رہے کہ مارچ میں بلوچستان سے سینیٹ کی 12 نشستوں پر انتخاب ہوگا جن میں سات جنرل، دو ٹیکنوکریٹس و علما، دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست شامل ہے۔
65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں ایک جنرل نشست پر کامیابی کے لیے نو ووٹ درکار ہوں گے۔ بلوچستان اسمبلی میں حکمران جماعت بی اے پی 24 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔
ان کی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کے سات، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے تین ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو  اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک رکن ہے۔
 اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل جے یو آئی اور بی این پی کے پاس دس دس نشستیں ہیں۔ اے این پی کے چار، پشتونخوا میپ اور مسلم لیگ ن کا ایک ایک رکن ہے۔بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست خالی ہے جس پر سولہ فروری کو انتخاب ہوگا۔

شیئر: