Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذہب کون بدلے گا؟

بی جے پی کے مطابق مسلمان نوجوان ایک وسیع تر سازش کےتحت ہندو لڑکیوں سے شادی کر رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
جب بھی میں نام نہاد ’لو جہاد‘ کے بارے میں سوچتا ہوں تو ذہن میں بس یہ ہی خیال آتا ہے کہ آج کل محبت کرنا کتنا خطرناک اور پیچیدہ ہوگیا ہے، اب وہ پہلے والی بات کہاں کہ کہیں بس یوں ہی کسی سے آنکھیں چار ہوئیں اور پہلی ہی نظر میں پیار ہوگیا۔
اب تو آنکھیں ملانے سے پہلے شجرے ملانے پڑتے ہیں۔ لڑکی اور لڑکے کا مذہب کیا ہے، دونوں ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں، اور بات اگر بن گئی اور شادی تک پہنچ گئی تو شادی ہندو ریتی رواج کے مطابق ہوگی یا اسلامی طور طریقوں سے۔ لڑکی مذہب بدلے گی یا لڑکا؟
یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ وہ مذہب پر عمل کرتے بھی ہیں یا نہیں اور اگر کرتے ہیں تو کتنی سنجیدگی سے۔
اور اگر دونوں اپنے اپنے مذہب پر ہی عمل کرتے رہنا چاہیں تو کیا ہوگا؟
ان لوگوں کے لیے بھی راستے موجود ہیں۔ وہ سپیشل میرجز ایکٹ کے تحت کورٹ میرج کرسکتے ہیں لیکن کورٹ میرج کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔
پہلے آپ ایک رجسٹرار کے دفتر میں جاکر یہ نوٹس دیجیے کہ آپ شادی کرنا چاہتے ہیں، پھر آپ کے گھر والوں کو مطلع کیا جائے گا اور اگر اس شادی میں ان کی مرضی شامل نہیں ہے تو بس آپ صرف ’لو‘ اور ’جہاد‘ ہی نہیں ’ہجرت اور شہادت‘ کے لیے بھی تیار رہیں۔
اور ہاں اس کاغذی کارروائی کے دوران رجسٹرار کے دفتر میں ایک مہینے تک یہ نوٹس چسپاں کیا جائے گا کہ اگر آپ کی مجوزہ شادی پر کسی کو اعتراض ہو تو وہ سامنے آئے۔
نکاح میں دو منٹ لگتے ہیں، ہندو رواج کے مطابق شادیوں میں دو تین گھنٹے اور کورٹ میرج میں کم سے کم دو مہینے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے بالغوں کو اپنا شریک حیات چننے کا حق دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

دو محبت کرنے والوں کی شادی پر گھر والوں کے علاوہ تو کسی کو کیا اعتراض ہوگا اور اگر ہو بھی تو کوئی کیوں فکر کرے، لیکن آج کل کچھ نوجوانوں کے ٹولے بس ایسے جوڑوں کو ہی ڈھونڈتے پھرتے ہیں جو اپنی محبت کو مذہب کے دائرے میں قید کرنے کے قائل نہیں ہیں۔
جھگڑے کا بیک گراؤنڈ آپ کو معلوم ہی ہے۔
انڈیا میں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ مسلمان نوجوان ایک وسیع تر سازش کےتحت ہندو لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں تاکہ انہیں مسلمان بنا سکیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی اے، یہ وہ ایجنسی ہے جو دہشت گردی کے کیسز کی تفتیش کرتی ہے، چھان بین کر چکی ہے لیکن سازش کا کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگا۔
اگر یہ واقعی کوئی سازش ہے تو بالکل صاف ہے کہ زیادہ سوچ سمجھ کر تیار نہیں کی گئی ہے۔ انڈیا میں بین المذہبی شادیوں کی تعداد ویسے ہی بہت کم ہے لیکن ہندو مسلم شادیاں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس رفتار سے تو سازش کا مقصد حاصل کرنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔
انڈیا کی کئی ریاستوں نے مسلمان لڑکوں اور ہندو لڑکیوں کے درمیان شادیوں کو روکنے کے لیے انتہائی سخت قوانین وضع کیے ہیں۔ ان میں لو جہاد کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ کسی ایک مذہب کا، لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ نشانے پر کون ہے۔
ان قوانین میں مذہب کی تبدیلی، اور خاص طور پر شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے کی راہ کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔

 مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی روکنے کے لیے سخت قوانین وضع ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اب ان میں سے کئی قوانین کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔ لو جہاد کے کیس میں تو نہیں لیکن ایک علیحدہ مقدمے میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے چند روز قبل کچھ ایسی باتیں کہیں جنہیں سن کر لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ بھی بتانے کی ضرورت پڑنی چاہیے؟
عدالت نے کہا کہ بالغوں کو اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ کہ جب کوئی لڑکا لڑکی اپنی ذات یا مذہب سے باہر شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں اپنے والدین، خاندان یا برادری کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسے نوجوانوں کو ہراساں کرنے کے بجائے پولیس کو انہیں تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کا پیغام یہ تھا کہ اب پڑھے لکھے لڑکے لڑکیاں شادی کے بارے میں خود فیصلہ کرتے ہیں اور ہو سکتا ہےکہ اس طرح کی شادیوں سے معاشرے میں ذات اور مذہب کی بنیاد پر پائی جانے والی تفریق کم ہو جائے۔
ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جس طرح مبینہ سازش عنقریب کامیاب نہیں ہوسکتی، اسی طرح نفرتیں بھی آسانی سے ختم نہیں ہوں گی۔
بین المذہب شادیاں اچھی ہوتی ہیں یا بری اور کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں، اس بارے میں تو آپ جتنا چاہیں بحث کرلیں، ان سوالوں کا کوئی واضح جواب نہیں ہوتا۔ یہ انفرادی پسند اور ناپسند کا معاملہ ہے۔

ہندو لڑکی سے شادی کرنے والے مسلمان لڑکے کو پولیس ہراساں کرتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

زیادہ تر والدین اس طرح کی شادیوں کی مخالفت سماج کے ڈر سے کرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ برادری میں ناک کٹ جائے گی۔
مذہب تو بہت دور کی بات ہے صرف ذات سے باہر شادی کرنے، یہاں تک کہ گاؤں کے اندر اپنی ہی ذات کے اندر شادی کرنے پر بھی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہیں۔ بہت سے علاقوں میں گاؤں کے اندر شادیوں کو بھی معیوب مانا جاتا ہے کیونکہ محبت کے رشتوں سے گاؤں کا ’بھائی چارہ‘ تباہ ہوتا ہے۔
لیکن محبت کی نہیں جاتی، ہو جاتی ہے۔ اب نوجوان لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں، ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کی ملاقات اگر کسی ایسے انسان سے ہوجاتی ہے جس کے ساتھ وہ زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو پھر وہ اس بات کی فکر نہیں کرتے کہ لوگ ان کے رشتے کو لو جہاد کا نام دیں گے یا گھر واپسی کا (یعنی کسی مسلمان کا ہندو مذہب اختیار کر لینا)۔
لگتا نہیں ہے کہ اس طرح کی شادیاں کم ہوں گی کیونکہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟

شیئر: