Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی آثارِ قدیمہ کی تلاش اور کھدائی دوبارہ شروع کرنے کی تیاری

متعدد جامعات کی ٹیموں کو بھی سروےکے لیے مدعو کیا گیا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کی ہیریٹیج اتھارٹی مملکت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد تقریباً ایک سال سے معطل رہنے والے منصوبوں پر سروے اور آثارِ قدیمہ کی کھدائی دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ منصوبے یونیورسٹیوں اور خصوصی بین الاقوامی تحقیقی مراکز کے بین الاقوامی مشنوں کی شراکت میں مکمل کیے جائیں گے۔
سعودی عرب کی متعدد جامعات کی ٹیموں کو بھی سروے اور کھدائی کے کاموں میں حصہ لینےکے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
ہیریٹیج اتھارٹی مملکت کی ثقافتی تاریخ کو دریافت کرنے کے لیے آثار قدیمہ کے سروے اور کھدائی کی ذمہ دار ہے۔
سعودی عرب میں کورونا کی وبا سے پہلے 40 سے زائد بین الاقوامی اور مقامی ٹیمیں آثار قدیمہ کی کھدائی میں حصہ لے رہی تھیں۔ اپنی تحقیق کے دوران انہوں نے جزیرہ نما عرب میں قدیم انسانی بستیوں کے آثار تلاش کیے جو سائنسی اشاعتوں میں شائع ہوئے تھے۔
اتھارٹی نے متعدد تحقیقی مراکز اور یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر آثار قدیمہ کے سروے اور کھدائی کا کام انجام دیا ہے اور یہ مشنز اپنے سعودی ہم منصبوں کے ساتھ مملکت میں 20 مقامات پر کام کرنے کے لیے واپس آئیں گے۔
آثار قدیمہ کے مشنز سعودی عوامی یونیورسٹیوں کے ساتھ اتھارٹی کے تعاون کے دائرہ کار میں پانچ آثار قدیمہ والے مقامات پر سروے کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں گے۔
اتھارٹی مملکت کے مختلف ریجنوں میں 19 مقامات پر پہلی بار آثار قدیمہ کے سروے اور کھدائی کے منصوبے بھی مکمل کرے گی اس کےعلاوہ پہلی بار خلیج عرب میں جہاز کے تباہ شدہ مقامات کو رجسٹرڈ کرے گی۔

سعودی اتھارٹی اس سال نئے تحقیقی منصوبے شروع کرے گی( فوٹو عرب نیوز)

توقع کی جارہی ہے کہ اتھارٹی اس سال مقامی شراکت داروں کے تعاون سے نئے تحقیقی منصوبے شروع کرے گی جس میں کنگ عبد العزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز، الدرعیہ گیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، رائل کمیشن فار العلا، نیوم کمپنی، ایمالا کمپنی اور ریڈ سی شامل ہیں۔
اس میں قومی کیڈرز بھی شامل ہوں گے جن میں مرد و خواتین طلبا کے ساتھ ساتھ منصوبوں میں آثار قدیمہ اور ورثے کے محققین شامل ہیں۔
کنگ سعود یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر فہد الوتبیبی نے کہا آثار قدیمہ کے سروے کی واپسی نے مملکت کی کورونا کی  وباسے نمٹنے میں کامیابی کے ساتھ ساتھ سعودی نوادرات کے ماہرین کے ذریعے حاصل کردہ اعلیٰ سطح کی مہارت کو بھی اجاگر کیا۔
اسلام سے پہلے جزیرہ نما عرب میں ’زبان تحریر اور شناخت‘ کے مصنف التوبیبی نے کہا ’سعودی عرب اپنی بہت بڑی آثار قدیمہ کی باقیات کے ساتھ دنیا بھر کے سکالروں کے لیے کشش ہے۔‘

سعودی عرب آثار قدیمہ کے حوالے سے دنیا  کے سکالروں کے لیے کشش رکھتا ہے۔( فوٹو ٹوئٹر)

انہوں نے مزید کہا ’آثار قدیمہ کے سروے سے بہت سے آثار قدیمہ اور تاریخی نتائج برآمد ہوں گے جو مملکت کی قومی تاریخ کے بارے میں معلومات میں پائے جانے والے خلا کو پُر کرنے یا کچھ سابقہ معلومات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔‘
الوطبیبی نے کہا کہ سعودی نوادرات کے محققین کی مشترکہ سروے کے ذریعے بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ شراکت داری اور سعودی ہیریٹیج اتھارٹی کی سعودی یونیورسٹیوں میں مقامی یونیورسٹیوں میں محکمہ آثار قدیمہ سے نمٹنے کے لیے سعودی ثقافتی ورثہ کی خواہش طلبا کے لیے فیلڈ ٹریننگ کے مواقع فراہم کرے گی اور نوادرات سے متعلق تجربات کو مقامی بنائے گی۔

شیئر: