Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں خواتین کو دوسرے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے، یو این رپورٹ

خواتین کےعالمی دن پر ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تفصیل دی گئی ہے۔(فوٹو اے پی)
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ رپورٹ آٹھ مارچ کو خواتین کےعالمی دن کے موقع پر شائع ہوئی جس میں ایرانی حکومت کی جانب سے ملک میں مختلف گروپوں کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے۔
مصنف جاوید رحمان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’انسانی حقوق کی حامی خواتین، لڑکیاں، اقلیتیں، مصنفین، صحافی اور دہری شہریت کے حامل افراد حکومت کے نشانے پر ہیں۔

رپورٹ میں سیاسی قیدیوں کی جبری گمشدگی کی تفصیلات شامل ہیں۔(فوٹومڈل ایسٹ مانیٹر)

انہیں بدسلوکی، تشدد، نظربندی، ہراسگی، جبری اعتراف جرم سمیت سزائے موت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس رپورٹ میں لڑکیوں کی شادی کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال صرف چھ ماہ کے دوران ایران میں 16ہزار سے زیادہ ایسی شادیاں ہوئیں جن میں لڑکیوں کی عمر 10 سے 14 سال کے درمیان ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جاوید رحمان کا کہنا تھا کہ ’آج ایران میں جب خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ان میں سب سے سنگین مسئلہ بچیوں کی شادی کا ہے۔ شادی کے لیے قانون کے مطابق موجودہ عمر ناقابل قبول ہے۔
جاوید رحمان نے ایرانی صحافیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے بارے میں رپورٹ کرنے والے صحافیوں اور مصنفین کے مسلسل نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو ماہرین، صحت سے متعلق انتظامات کے بارے میں سوالات کرتے ہیں انہیں بھی اکثر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا یا ملازمت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
ایران جانے کے لیے جاوید رحمان کی درخواستیں کئی مرتبہ مسترد ہونے کے بعد انہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا سے جمع کردہ تمام ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔
اس رپورٹ میں انہوں نے زیادتیوں کا نشانہ بننے والےافراد کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور وکیلوں کے انٹرویوز  بھی شامل کئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے ایرانی کوششوں کی راہ میں بین الاقوامی پابندیاں رکاوٹ تھیں تاہم ایرانی حکومت پر تنقید بھی کی گئی کہ ناکافی اقدامات کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا۔
بعض عہدیداروں نے ان قوانین کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کے خلاف حملوں کی حوصلہ افزائی کی اور دیگر طریقوں سے ان کے تحفظ کو خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پولیس، باسج ملیشیا اور چوکس اخلاقیات پولیس پردے کے قوانین کا نفاذ ممکن بناتی ہے۔ کبھی کبھار خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے۔ اس میں تیزاب سے حملہ اور قتل بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں کس طرح صنفی امتیاز برتا جاتا ہے۔ شادی، طلاق، روزگار اور ثقافت سمیت قانون اور روزمرہ زندگی میں خواتین کو دوسرے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ امتیازی قوانین کو منسوخ کرے اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کی توثیق کرے۔
واضح رہے کہ ایران ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کئے۔

کورونا وائرس کی رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو بپھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔(فوٹوگلف انسائیڈر)

19 نومبر کو ملک گیر احتجاج کے دوران مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کی تحقیقات کرنے یا مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں حکومت کی ناکامی کے حوالے سے جاوید رحمان نے جو ثبوت پیش کیا وہ اس جانب اشارہ کرتا ہے۔
وہاں جس انداز میں آتشیں اسلحے کا استعمال کیا گیا وہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ اس کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 300 سے زائد افراد کی موت ہوئی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کو انتخابی مہم روکنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں گرفتار شدگان کے رشتہ داروں کو نشانہ بنانے کے واقعات بڑے پیمانے پر ہوئے۔
جولائی 2020 میں انسانی حقوق کی مہم چلانے والی مسیح علی نجاد کے بھائی ، علی رضا علی نجاد کو بہن کی وکالت کرنے پرقومی سلامتی کے متنازعہ الزامات کے تحت 8 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
جاوید رحمان نے ایران میں عدم استحکام کے کلچر کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ احتجاج کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں سےاس مطالبے کو تقویت ملی ہے۔

ویب سائٹ اور ایپلی کیشنز کو مسدود کرنا آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔(فوٹوعرب نیوز)

گذشتہ سال 12 ستمبر کو پہلوان نوید افکری کو  جس نے شیراز میں اگست 2018 کے مظاہروں میں حصہ لیا تھا، ایرانی قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں کسی پیشگی اطلاع کے بغیر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اس رپورٹ میں حراست میں لئے گئے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، مزدوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں، دہری شہریت کے حامل اور غیر ملکی شہریوں نیز وکلا کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادتیوں کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے سے روکنے کی کوشش میں ٹیلیگرام ، ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کو مستقل طور پر بلاک اور ناقابل رسائی کردیا گیا ہے۔
رحمان نے کہا انٹرنیٹ، ویب سائٹس اور دیگر ایپلی کیشنز کو مسدود کرنا آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نسلی، مذہبی اور صنفی اقلیتوں کے خلاف جاری امتیازی سلوک خطرے کا باعث ہے۔
اس رپورٹ میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی قیدیوں کی سزائے موت اور ان کی جبری گمشدگی کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
 

شیئر: