Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کا لانگ مارچ ملتوی: کیا حکومت کو سیاسی ریلیف مل گیا؟ 

اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پڑنے کی بازگشت کو حکومت اپنی سیاسی فتح قرار دے رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
حزب اختلاف کی دس جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کے ساتھ جہاں اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پڑنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے وہیں حکومت اس اعلان کو اپنی سیاسی فتح قرار دے رہی ہے۔  
حزب اختلاف کی حکومت مخالف تحریک گذشتہ چند ماہ سے اپنے عروج پر تھی اور چند ہفتوں سے ملکی سیاست میں ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے اپوزیشن کو حکومت پر سیاسی برتری بھی حاصل ہوئی۔

 

 ایسے موقع پر جب سیاسی ماحول اپنے عروج پر تھا 26 مارچ کے لانگ مارچ کو ملتوی کرنے سے حکومت کو کس حد تک ریلیف حاصل ہوا ہے اور حکومت کی آئندہ حکمت عملی اور ترجیحات کیا ہوں گی، اردو نیوز نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔  

’اپوزیشن کا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان حکومت کی سیاسی فتح ہے‘  

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی سمجھتے ہیں کہ ’اپوزیشن کا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان حکومتی جماعت کی سیاسی اور اخلاقی فتح ہے۔‘
’حکومت کو ایک بڑی سیاسی مزاحمت کا سامنا تھا لیکن اب لانگ مارچ منسوخ ہونے کا مطلب ہے کہ اپوزیشن کی پوری تحریک موخر ہوچکی ہے اور پیپلز پارٹی کا استعفوں کے معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آنے سے اپوزیشن کی ساکھ کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن کا لانگ مارچ کب تک موخر رہے گا اور مستبقل میں اپوزیشن اتحاد کیا اقدمات اٹھاتی ہے یہ تو دیکھنا ہوگا لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن کو نقصان پہنچا ہے اور یہی حکومتی جماعت کی سیاسی اور اخلاقی فتح ہے۔‘  
سینیئر صحافی اور مصنف سہیل وڑائچ کے مطابق ’اپوزیشن کے لانگ مارچ کے اعلان کو ملتوی کرنے کے اعلان سے براہ راست فائدہ حکومت کو ہی پہنچا ہے اور وقتی طور پر حکومت کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ہے لیکن ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔‘

ماہرین کے مطابق ’لانگ مارچ ملتوی ہونے سے حکومت کو وقتی طور پر بڑا ریلیف ملا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی) 

کیا حکومت کی آئندہ حکمت عملی اور ترجیحات تبدیل ہوں گی؟  

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوں گی اور نہ ہی ملک میں سیاسی محاذ آرائی کی شدت میں کمی آئی گی۔‘
’حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ وہ غلط چل رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کی جو جارحانہ پالیسی اور جارحانہ بیانیہ ہے وہ اسی کو جاری رکھی گی اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو پارلیمان میں جو مسائل درپیش ہیں وہ بھی جوں کے توں ہی رہیں گے کیونکہ حکومتی ترجیحات میں پارلیمان کے ذریعے مسائل حل کرنا نہیں ہے۔‘
’حکومت جب تک مصالحتی سیاست شروع نہیں کرے گی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا۔‘  

ماہرین کے مطابق ’حکومت کی جانب سے مصالحتی سیاست شروع کرنے تک اپوزیشن تعاون نہیں کرے گی‘ (فوٹو: پی ایم آفس) 

آئینی ترمیمی بل میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پی پی پی اپوزیشن اتحاد سے باہر نکل چکی ہے، اپوزیشن کا لانگ مارچ بھی ہوگا اور پیپلز پارٹی شرکت بھی کرے گی لیکن استعفوں کے معاملے پر اپوزیشن کی دیگر جماعتیں پیپلز پارٹی کے موقف کے ساتھ ہی لانگ مارچ کریں گی۔‘  
سینیئر صحافی عارف نظامی کے خیال میں حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیش کش پر پیپلز پارٹی کی جانب سے مثبت جواب کے امکانات کم ہیں۔‘
 ’حکومت نے مجبور کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پارلیمان کے بجائے سڑکوں پر آئیں اور مستقبل میں بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ حکومت پارلیمانی سیاست کو سنجیدہ لے۔‘
عارف نظامیکے مطابق ’حکومت کو کچھ امور پر اپوزیشن کا تعاون درکار ہے لیکن پی پی پی فور طور پر پی ڈی ایم سے نکل کر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھ سکتی۔‘   

شیئر: